منقب سید
محفلین
اس ضمن میں اس آرڈیننس کا مسودہ وزارت داخلہ اور وزارت قانون کو بھجوا دیا ہے جہاں سے منظوری کے بعد چیف کمشنر نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔
متعقلہ وزارتوں کو بھیجےگئے اس آرڈیننس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ریڈ زون کو ہائی سکیورٹی زون قرار دیا گیا ہے جہاں پر پانچ افراد کو اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں ہے اور زون میں داخلے کا اختیار وہاں پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ہو گا۔
ہائی سکیورٹی زون میں شاہراہ دستور میں واقع اہم عمارتیں شامل ہیں جن میں پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم ہاؤس کے ساتھ ساتھ ڈپلیومیٹک انکلیو، سپریم کورٹ، پی ٹی وی، کوہسار کمپلکس میں واقع آئی ایس آئی کے اہلکاروں کی رہائش گاہوں، ججز کالونی کے علاوہ بلوچستان ہاؤس، پنجاب ہاؤس، سندھ ہاؤس اور خیبر پختون خوا ہاؤس شامل ہیں۔
اس مسودے میں کہا گیا ہے کہ اس زون میں واقع سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کے علاوہ غیر متعقلہ افراد کو داخلے کی اجازت پولیس کا گریڈ 17 کا افسر ہی دے گا اور بغیر اجازت داخل ہونے والے شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
اس مسودے میں کہا گیا ہے کہ متعقلہ پولیس افسران کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں داخل ہونے والے شخص کو چھ ماہ قید اور دس ہزار روپے جُرمانے تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس مسودے اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو بھی ہائی سکیورٹی زون میں کسی بھی قسم کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی بھی شخص اسلحہ تو دور کی بات ڈنڈا لے کر بھی ہائی سکیورٹی زون میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
خلاف ورزی کا مرتکب پائے جانے والے شخص کو تین سال تک قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ کوئی بھی شخص اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کرے گا۔
اس مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ہائی سکیورٹی زون میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ کسی بھی فرد یا جماعت کو ناکے لگا کر لوگوں اور گاڑیوں کو چیک کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
اس مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ آرڈیننس صرف اسلام آباد کی حدود میں ہی نافذ العمل ہو گا اور اس پر عمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ایس ایس پی رینک کے افسران نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کو 30 اگست اور یکم ستمبر کو وزیر اعظم ہاؤس کی طرف مارچ کرنے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے سے مغدرت کر لی تھی جبکہ اس دوران وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے ارکان کے علاوہ اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ حکام کے خلاف تین افراد کی ہلاکت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کو پانچویں صوبے کی حثیت حاصل ہوتی ہے اور وفاقی دارالحکومت کے چیف کمشنر کے پاس وہی اختیارات ہوتے ہیں جو صوبے میں کسی گورنر کے پاس ہوتے ہیں۔
اُدھر اسلام آباد کی انتظامیہ نے 30 نومبر کے لیے پنجاب پولیس سے چار ہزار جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے پولیس کے ایک ہزار اور ایف سی کے تین ہزار اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے متعقلہ حکام کو خط لکھ دیا ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141118_islamabad_security_ra
(صحافت کے زمرے میں میری جانب سے بنائی جانے والی لڑیاں صد فی صد معلومات عامہ کی نیت پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کی بنا پر کسی سیاسی، مذہبی یا سماجی تنظیم یا کسی سرکاری نیم سرکاری ادارے یا کسی مخصوص مکتبہ فکر و مسلک سے میرا تعلق نہ جوڑا جائے)