محمداحمد
لائبریرین
اسلام آباد: (ویب ڈیسک) وزیراعظم نے ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی سے تنازع ختم ہونے اور 11 ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہونے کی خوشخبری سنادی۔
وزیراعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ 10 سال کی قانونی لڑائیوں اور گفت و شنید کے بعد بالآخر ریکوڈک کان کی ڈویلپمنٹ کے لیے بیرک گولڈ کے ساتھ کامیاب معاہدے پر بلوچستان کی قوم اور عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا ہے کہ تقریباً 11 ارب ڈالر کا جرمانہ آف سیٹ ہوا ہے، دس ارب ڈالر بلوچستان میں لگائے جائیں گے جس سے 8 ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کان ہوگی، یہ منصوبہ ہمیں قرضوں سے آزاد کرے گا اور ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔
ریکوڈک کیا ہے
ریکوڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں ریتیلی چوٹی ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ریکوڈک اپنے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں سونے کا دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہے۔
یہ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب نوکنڈی سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ ٹیتھیان کی پٹی میں واقع ہے جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔
ریکوڈک کا معاملہ ٹیتھیان کاپر کمپنی اور حکومت پاکستان کے درمیان آسٹریلیاپاکستان دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کی خلاف ورزی اور تانبے اور سونے کے سب سے بڑے میں سے ایک کی کان کنی کے حقوق سے انکار پر ایک قانونی مقدمہ تھا۔
کیس کا پس منظر
آسٹریلوی کان کنی کمپنی بی پی ایچ بلیٹن اور حکومت پاکستان نے 1993 میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کے لیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی اس منصوبے میں 75 فیصد سود پر رکھے گی جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25 فیصد حصہ باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پر دو فیصد رائلٹی کی ادائیگی کے ساتھ ہوگا۔ بعد ازاں اپریل 2000 میںکمپنی نے اپنی ذمہ داریاں ایک غیر معروف آسٹریلوی کمپنی مائنر ریسورسزکے حوالے کر دیں، جسے ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں حاصل کیا تھا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے فروری 2011 میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مائننگ لیز کی درخواست جمع کرائی تاہم اسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
بعد ازاں 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو کالعدم قرار دیا کیونکہ بلوچستان نے اس پر دستخط کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا کیونکہ یہ عوامی پالیسی کی مخالفت کر رہا تھا۔ عدالت کاکہنا تھا کہ ٹی سی سی کے پاس ریکوڈک میں دریافت اور کان کنی کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔
2011 کے فیصلے پر ٹی سی سی کو ریکوڈک پروجیکٹ کے لیے کان کنی کی لیز سے انکار کرنے کے بعد آئی سی ایس آئی ڈی کے ایک بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے 12 جولائی 2019 کو پاکستان پر 6 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔
ٹربیونل کی سربراہی جرمنی کے کلاؤس ساکس کر رہے تھے اور اس میں بلغاریہ کے ثالث سٹینمیر الیگزینڈروف اور برطانیہ کے لارڈ ہوف مین بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹی سی سی کو 4 بلین ڈالر سے زائد ہرجانے کے علاوہ 1اعشاریہ 7 بلین ڈالر کے پری ایوارڈ سود ادا کرے۔
جب آئی سی ایس آئی ڈی نے آسٹریلیا پاکستان دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کی خلاف ورزی پر ایوارڈ کا اعلان کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا کہ اس کی وجوہات کی تحقیقات کرے کہ پاکستان اس مشکل میں کیسے ۔
وزیراعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ 10 سال کی قانونی لڑائیوں اور گفت و شنید کے بعد بالآخر ریکوڈک کان کی ڈویلپمنٹ کے لیے بیرک گولڈ کے ساتھ کامیاب معاہدے پر بلوچستان کی قوم اور عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا ہے کہ تقریباً 11 ارب ڈالر کا جرمانہ آف سیٹ ہوا ہے، دس ارب ڈالر بلوچستان میں لگائے جائیں گے جس سے 8 ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کان ہوگی، یہ منصوبہ ہمیں قرضوں سے آزاد کرے گا اور ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔
ریکوڈک کیا ہے
ریکوڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں ریتیلی چوٹی ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ریکوڈک اپنے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں سونے کا دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہے۔
یہ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب نوکنڈی سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ ٹیتھیان کی پٹی میں واقع ہے جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔
ریکوڈک کا معاملہ ٹیتھیان کاپر کمپنی اور حکومت پاکستان کے درمیان آسٹریلیاپاکستان دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کی خلاف ورزی اور تانبے اور سونے کے سب سے بڑے میں سے ایک کی کان کنی کے حقوق سے انکار پر ایک قانونی مقدمہ تھا۔
کیس کا پس منظر
آسٹریلوی کان کنی کمپنی بی پی ایچ بلیٹن اور حکومت پاکستان نے 1993 میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کے لیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی اس منصوبے میں 75 فیصد سود پر رکھے گی جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25 فیصد حصہ باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پر دو فیصد رائلٹی کی ادائیگی کے ساتھ ہوگا۔ بعد ازاں اپریل 2000 میںکمپنی نے اپنی ذمہ داریاں ایک غیر معروف آسٹریلوی کمپنی مائنر ریسورسزکے حوالے کر دیں، جسے ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں حاصل کیا تھا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے فروری 2011 میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مائننگ لیز کی درخواست جمع کرائی تاہم اسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
بعد ازاں 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو کالعدم قرار دیا کیونکہ بلوچستان نے اس پر دستخط کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا کیونکہ یہ عوامی پالیسی کی مخالفت کر رہا تھا۔ عدالت کاکہنا تھا کہ ٹی سی سی کے پاس ریکوڈک میں دریافت اور کان کنی کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔
2011 کے فیصلے پر ٹی سی سی کو ریکوڈک پروجیکٹ کے لیے کان کنی کی لیز سے انکار کرنے کے بعد آئی سی ایس آئی ڈی کے ایک بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے 12 جولائی 2019 کو پاکستان پر 6 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔
ٹربیونل کی سربراہی جرمنی کے کلاؤس ساکس کر رہے تھے اور اس میں بلغاریہ کے ثالث سٹینمیر الیگزینڈروف اور برطانیہ کے لارڈ ہوف مین بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹی سی سی کو 4 بلین ڈالر سے زائد ہرجانے کے علاوہ 1اعشاریہ 7 بلین ڈالر کے پری ایوارڈ سود ادا کرے۔
جب آئی سی ایس آئی ڈی نے آسٹریلیا پاکستان دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کی خلاف ورزی پر ایوارڈ کا اعلان کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا کہ اس کی وجوہات کی تحقیقات کرے کہ پاکستان اس مشکل میں کیسے ۔