ریکویسٹ ریجیکٹ نو کومنٹ (9)

پاکستانی لڑکوں کا خطرناک حد تک جھکاؤ غیر ملکی خواتین کی طرف ہو گیا ہے،
آئے روز خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ اطالوی لڑکی محبوب کی تلاش میں چشتیاں پہنچ گئی،
برطانوی دوشیزہ بورے والا کے لڑکے کے عشق میں پاکستان آ گئی،
غیر ملکی خواتین پاکستانی لڑکوں کی قابلیت اور وفا شعاری سے متاثر ہو کر جوق در جوق پاکستان کا رخ کر رہی ہیں، اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات اصل میں پاکستانی لڑکیوں کی مغروری اور مسلسل فرینڈ ریکویسٹ کو ریجیکٹ کرنا بتائی گئی ہے،
لڑکے مایوسی کے عالم میں مغربی خواتین کی طرف مائل ہوتے ہیں ایک سروے کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں غیر ملکی خواتین کی تعداد بڑھ سکتی ہے،
گرلز ہور کرو فرینڈ ریکویسٹ ریجیکٹ...!
 

bilal260

محفلین
بہت اچھی پوسٹ لکھ ڈالی آپ نے میں تو کسی کو بھی ریکویسٹ نہیں بھیجتا اگر کوئی مجھے بھیج بھی دے تو میں اگنور کر دیتا ہوں۔
لائو کوئی مجھ جیسا شریف۔
 

نکتہ ور

محفلین
گل نوخیز اختر نے اس کا خوب کچا چٹھا کھولا ہے


آپ نے کبھی ''چمڑیس پور‘‘ کا نام سنا ہے؟ نہیں سنا‘ حالانکہ یہ تحصیل ''لدھڑ آباد‘‘ کا بڑا مشہور گائوں ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ آپ ''لدھڑ آباد‘‘ کا نام بھی پہلی دفعہ سن رہے ہیں۔ آپس کی بات ہے میں نے بھی یہ نام پہلی دفعہ سنے ہیں لیکن حیران ہوں کہ یہاں ایسی کیا خاصیت ہے جو آسٹریلیا کی خاتون کو پسند آ گئی۔ پہلے پورا واقعہ سن لیجئے۔ میں جس سروس اسٹیشن سے گاڑی واش کرواتا ہوں وہاں کا ایک لڑکا طفیل مجھے کافی عرصہ سے جانتا ہے۔ بمشکل پانچ جماعتیں پڑھا ہوا ہے‘ صبح کے وقت سروس اسٹیشن پر گاڑیاں دھوتا ہے اور شام کو اپنے جیسے ہی ایک ڈاکٹر کے پاس کمپائونڈری کرتا ہے۔ دو دن پہلے اس نے مجھے بڑے اہتمام سے ایک شادی کارڈ تھمایا اور کہا: ''سر جی! میری شادی ہے، آپ نے ضرور آنا ہے۔‘‘ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر شادی کارڈ کھولا اور مجھے دو جھٹکے لگے۔ پہلا جھٹکا تو یہ لگا کہ ساری عبارت روایتی کارڈ والی تھی تاہم ولیمہ کے لیے جگہ کا نام 'چمڑیس پور‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے حدود اربعہ پوچھا تو پتا چلا کہ یہ تحصیل لدھڑ آباد کا گائوں ہے اور اتنا مشہور ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ اپنے گائوں کے نام سے واقف ہے۔ دوسرا جھٹکا یہ لگا کہ دلہن کا نام ''جینی فر‘‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے کنپٹی کھجاتے ہوئے طفیل سے پوچھا ''دلہن غیر مسلم ہے؟‘‘۔ طفیل کے دانت نکل آئے ''ہاں جی! لیکن میری خاطر اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور آسٹریلیا سے آرہی ہے‘‘۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ آسٹریلیا کی جینی فر‘ چمڑیس پور کے طفیل پر عاشق ہو گئی؟ لیکن کیسے؟... خدا گواہ ہے حسد کی شدید ترین لہر میرے اندر ابھری لیکن میں نے بمشکل اسے دبا لیا اور اتنا ہی کہا 'مبارک ہو!‘
پتا چلا کہ طفیل فیس بک جوائن کر چکا ہے اور 'جینی فر‘ سے اُس کا رابطہ فیس بک پر ہوا تھا‘ اس کے بعد آپس میں گپ شپ شروع ہوئی اور دونوں طرف عشق ہو گیا۔ میں نے طفیل سے پوچھا کہ گپ شپ پنجابی میں ہوتی رہی؟ قہقہہ لگا کر بولا ''نہیں سر جی! اُسے تو انگریزی کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں‘‘۔ میں نے دانت پیسے''تو پھر وہ تمہاری پنجابی اور تم اُس کی انگریزی کیسے سمجھ گئے؟‘‘۔ طفیل نے ایسا جواب دیا کہ میں عش عش کرکے غش کھا گیا۔ کہنے لگا ''سر جی! میں اُردو میں چھوٹا سا جملہ لکھ کر ٹائپ کرتا تھا اور گوگل ٹرانسلیشن سے ترجمہ کروا کے اسے بھیج دیتا تھا‘ جواب میں جو کچھ آتا تھا وہ بھی میں اسی طرح اُردو میں ٹرانسلیٹ کروا لیتا تھا اور اتنی سمجھ آجاتی تھی کہ 'جینی فر‘ کیا کہہ رہے۔ بس اسی طرح ہم دونوں کو پیار ہو گیا۔ 'جینی فر‘ ایک بہت بڑے فیکٹری مالک کی بیٹی ہے‘ میں نے اسے متاثر کرنے کے لیے بتایا کہ میں بھی 'چمڑیس پور‘ کا بہت بڑا جاگیردار ہوں اور اس کے علاوہ میرا امپورٹ ایکسپورٹ کا بہت بڑا بزنس ہے۔‘‘
طفیل کی بات سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ 'دونوں طرف تھی بکواس برابر لگی ہوئی‘‘۔ طفیل نے بتایا کہ ''پھر میں نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو اس نے فوراً ہامی بھر لی۔ میں نے اسے فیس بک پر ہی مشرف بہ اسلام کیا اور اب وہ آسٹریلیا سے مجھے لینے آ رہی ہے۔‘‘ میرے کان کھڑے ہو گئے ''لینے آرہی ہے؟ کیا مطلب... کیا تم آسٹریلیا جائو گے؟‘‘۔ طفیل کا سینہ پھول گیا ''ہاں جی سر! اس نے سارا انتظام کر لیا ہے، شادی کے بعد وہ مجھے آسٹریلیا لے جائے گی اور باقی کی زندگی میں آسٹریلیا ہی میں گزاروں گا۔‘‘ طفیل کی بات سن کر بے اختیار دل میں ایک کسک سی پیدا ہوئی کہ کاش پاکستان میں 17 سال پہلے فیس بک آ گئی ہوتی... لیکن خیر... ہونی کو کون ٹال سکتا ہے!!
آئے دن یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ باہر کے ملک کی کوئی میم پاکستانی نوجوان پر نہ صرف عاشق ہو گئی ہے بلکہ شادی رچانے پاکستان بھی آرہی ہے۔ کبھی ان لوگوں کو دیکھئے گا جن پر یہ مغربی عورتیں عاشق ہوتی ہیں‘ ان میں سے اکثر کا تعلق عجیب و غریب ناموں والے علاقوں سے ہوتا ہے‘ یہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے‘ شکل و صورت بھی کوئی خاص نہیں ہوتی‘ پھر آخر اِن کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہوتی ہے کہ سات سمندر پار کی عورتیں ان پر دل و جان سے فدا ہو جاتی ہیں۔ اس کا جواب مجھے طفیل کی ہونے والی بیگم کی تصویر دیکھ کر مل گیا۔ طفیل کی عمر 27 سال ہے اور اس کی بیگم اللہ جھوٹ نہ بلوائے میک اپ کے باوجود 55 سال کی لگ رہی ہے۔
یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جو چھ سات درجن بوائے فرینڈ اور ڈیڑھ دو درجن شوہر بھگتا چکی ہوتی ہیں۔ یہ آسٹریلیا کے 'چمڑیس پور‘ کی رہائشی ہوتی ہیں اور طفیل کی طرح ہی لمبی لمبی چھوڑتی ہیں۔ ان کی اکثریت شادی اس لیے بھی کرنا چاہتی ہے کیونکہ شادی کے علاوہ یہ سب کچھ کر چکی ہوتی ہیں۔ پاکستانی 'طفیلیوں‘ کو یہ اس لیے فوراً پسند آجاتی ہیں کہ ملک سے باہر جانے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آ جاتا ہے‘ لیکن عموماً یہ شادیاں ناکام رہتی ہیں کیونکہ باہر کی 'دوشیزائیں‘ اکثر جب پاکستان آتی ہیں تو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سعادت مند بیوی کی حیثیت سے یہیں سیٹل ہونے کے ارادے سے آتی ہیں اور یہی بات سارے پلان کا بیڑا غرق کر دیتی ہے۔
کئی ایسے خوش نصیب بھی ہوتے ہیں جو کسی 'جینی فر‘ سے شادی کے بعد ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر ساری زندگی سات سمندر پار 'چمڑیس پور‘ میں سسکتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں اور زوجہ محترمہ سے بڑی حسرت کے ساتھ پوچھتے ہیں ''یہ آسٹریلیا کا کون سا علاقہ ہے جہاں ابھی تک تانگے چلتے ہیں؟‘‘ ایسی شادیاں اس لیے بھی زیادہ دیر نہیں چلتیں کہ بیگمات جلدی وفات نہیں پاتیں۔ عموماً پاکستانی نوجوان اس لیے بھی باہر کے ملک کی 'اماں‘ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیںکہ یہ جلدی مر جائے گی لیکن ہوتا بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کئی نوجوان لڑکیاں پیسوں کے لالچ میں کسی قریب المرگ بابے سے شادی کر لیتی ہیں؛ تاہم بعد میں پتا چلتا ہے کہ شادی کی خوشی میں بابے کی ساری بیماری رفوچکر ہو گئی ہے اور اب وہ بالکل یوں ہو گیا ہے 'منڈا جیویں پنجی سال دا۔
آپ نے شاید کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی ایسے پاکستانی پر کوئی غیر ملکی 'لڑکی‘ بھی عاشق ہو گئی ہو‘ ان کی منکوحہ بننے کے لیے وہی تیار ہوتی ہے جسے چھ بچے پیدا کرنے کے بعد یاد آتا ہے کہ اب کوئی اچھا سا شوہر بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے ''طفیلیوں‘‘ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کیونکہ جب یہ کسی 'جینی فر‘ سے شادی رچاتے ہیں تو ساتھ ہی اپنی منگیتر کو بھی تسلی دے دیتے ہیں کہ ''شکیلہ! میں اک دن لوٹ کے آئوں گا‘‘... اکثر پاکستانی نیشنیلٹی کے چکر میں باہر کے ممالک میں 'پیپر میرج‘ کر لیتے ہیں‘ صالح پاکستانیوں کے لیے یہ ایک محفوظ شادی کہلاتی ہے جس کے بعد انہیں نیشنیلٹی بھی مل جاتی ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔ میرے ایک دوست عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم تھے‘ انہیں وہاں کی نیشنیلٹی نہیں مل رہی تھی، موصوف انتہائی شریف النفس اور باکردار تھے۔ ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ وہ کسی عفیفہ سے پیپر میرج کر لیں اور جونہی نیشنیلٹی ملے‘ اسے چلتا کریں۔ موصوف چھٹیوں میں پاکستان تشریف لائے تو بیگم سے اجازت مانگی کہ کیا وہ کسی گوری سے 'پیپر میرج ‘ کر لیں؟ خاتون نے چونک کر پوچھا کہ پیپر میرج کیا ہوتی ہے؟ فرمایا ‘ ایسی شادی جو صرف کاغذوں میں درج ہوتی ہے۔ خاتون اطمینان سے سر ہلا کر بولیں 'اچھا اچھا، جیسے ہماری ہے...‘‘

ربط
 

نکتہ ور

محفلین
چند اقتباسات :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:

آسٹریلیا کی جینی فر‘ چمڑیس پور کے طفیل پر عاشق ہو گئی؟ لیکن کیسے؟... خدا گواہ ہے حسد کی شدید ترین لہر میرے اندر ابھری لیکن میں نے بمشکل اسے دبا لیا اور اتنا ہی کہا 'مبارک ہو!‘

طفیل کی بات سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ 'دونوں طرف تھی بکواس برابر لگی ہوئی‘‘۔

کاش پاکستان میں 17 سال پہلے فیس بک آ گئی ہوتی... لیکن خیر... ہونی کو کون ٹال سکتا ہے!!

ہوتا بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کئی نوجوان لڑکیاں پیسوں کے لالچ میں کسی قریب المرگ بابے سے شادی کر لیتی ہیں؛ تاہم بعد میں پتا چلتا ہے کہ شادی کی خوشی میں بابے کی ساری بیماری رفوچکر ہو گئی ہے اور اب وہ بالکل یوں ہو گیا ہے 'منڈا جیویں پنجی سال دا۔

موصوف چھٹیوں میں پاکستان تشریف لائے تو بیگم سے اجازت مانگی کہ کیا وہ کسی گوری سے 'پیپر میرج ‘ کر لیں؟ خاتون نے چونک کر پوچھا کہ پیپر میرج کیا ہوتی ہے؟ فرمایا ‘ ایسی شادی جو صرف کاغذوں میں درج ہوتی ہے۔ خاتون اطمینان سے سر ہلا کر بولیں 'اچھا اچھا، جیسے ہماری ہے...‘‘
:biggrin::biggrin::biggrin:
 

لاریب مرزا

محفلین
پاکستانی لڑکوں کا خطرناک حد تک جھکاؤ غیر ملکی خواتین کی طرف ہو گیا ہے،
آئے روز خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ اطالوی لڑکی محبوب کی تلاش میں چشتیاں پہنچ گئی،
برطانوی دوشیزہ بورے والا کے لڑکے کے عشق میں پاکستان آ گئی،
غیر ملکی خواتین پاکستانی لڑکوں کی قابلیت اور وفا شعاری سے متاثر ہو کر جوق در جوق پاکستان کا رخ کر رہی ہیں، اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات اصل میں پاکستانی لڑکیوں کی مغروری اور مسلسل فرینڈ ریکویسٹ کو ریجیکٹ کرنا بتائی گئی ہے،
لڑکے مایوسی کے عالم میں مغربی خواتین کی طرف مائل ہوتے ہیں ایک سروے کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں غیر ملکی خواتین کی تعداد بڑھ سکتی ہے،
گرلز ہور کرو فرینڈ ریکویسٹ ریجیکٹ...!
سارا مضمون ایک طرف، آخری جملے نے کیا ہی لطف دیا۔ :)
 

Mahoo

معطل
پاکستانی لڑکوں کا خطرناک حد تک جھکاؤ غیر ملکی خواتین کی طرف ہو گیا ہے،
آئے روز خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ اطالوی لڑکی محبوب کی تلاش میں چشتیاں پہنچ گئی،
برطانوی دوشیزہ بورے والا کے لڑکے کے عشق میں پاکستان آ گئی،
غیر ملکی خواتین پاکستانی لڑکوں کی قابلیت اور وفا شعاری سے متاثر ہو کر جوق در جوق پاکستان کا رخ کر رہی ہیں، اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات اصل میں پاکستانی لڑکیوں کی مغروری اور مسلسل فرینڈ ریکویسٹ کو ریجیکٹ کرنا بتائی گئی ہے،
لڑکے مایوسی کے عالم میں مغربی خواتین کی طرف مائل ہوتے ہیں ایک سروے کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں غیر ملکی خواتین کی تعداد بڑھ سکتی ہے،
گرلز ہور کرو فرینڈ ریکویسٹ ریجیکٹ...!
اس کی ایک وجہ لڑکوں کا بےجا تنگ کرنا بھی ہوسکتا ہے
 
Top