میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں اپنی آئیڈیالوجی پر توجہ دینی چاہئے۔ اگر ہم آج اقبال کا پاکستان یا قائدِ اعظم کا پاکستان چاہتے ہیں تو کیا اس کے لئے معروضی حقائق موجود ہیں؟ یا ہم محض یہ اصطلاحات اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ یہ "اِن" ہیں؟
اقبال مرحوم کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ وہ نہ اِدھر کے رہے اور نہ ہی اُدھر کے۔ ایک طرف ان کے پاس سر کا خطاب تھا جوانہوں نے ہر ممکن کوشش سے آخری وقت تک سنبھال کر رکھا تو دوسری طرف ان کے کلام میں ہر وہ بات موجود ہے جو ان کے اس فعل کی نفی کرتی ہے۔ ایک طرف تو وہ "شاہیں کا جہاں"، "ایک ہوں امت کی پاسبانی کے لئے"، "نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر" اور پتہ نہیں کیا کیا فرماتے ہیں تو دوسری جانب "عوام" کے متعلق کا رویہ اس ایک فقرے سے واضح ہو جاتا ہے کہ "ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا" (یہ تو لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مذہبی نکتہ نظر سے کیا ہونا چاہئے تھا)
ظاہر ہے کہ مجھے اس بات کی کوئی امید نہیں کہ ایک یا دو اراکین کے سوا کوئی میری بات پوری طرح پڑھے گا بھی، سمجھنا تو دور کی بات رہ جاتی ہے۔ اس لئے مجھے ہر ممکن ردِعمل کی توقع ہے