قیصرانی
لائبریرین
بشیرا
میںایک طویل مدت اور لمبے عرصے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور آپ یہ ملاحظہ فرما رہے ہو ں گے کہ اب “زاویہ“ کا رنگ کچھ مختلف ہے اور اس کی ہئیت میںپہلے کے مقابلے میںتبدیلی آ گئی ہے۔ اس طوی۔ مدت اور اس قدر لمبی مدت کی غیر حاضری کی کیا وجہ ہے؟ اس کا میںہی سراسر ذمہ دار ہوں اور میںسمجھتا ہوں کہ یہ کوتاہی میری طرف سے ہوئی ہے۔ مجھے خیال آیا اور ایک مقام پر میں نے سوچا کہ شاید میں زاویےکےپروگرام سے بہترطور پر آپ کی خدمت کر سکتا ہوں اور کسی ایسے مقام پر پہنچ کر آپ کی دستگیری کروں جہاںپر مجھے پہنچ جانا چاہئے تھا لیکن یہ خیال باطل تھا اور یہ بات میرے نزدیک درست نہیں تھی لیکن اس کا احساس مجھے بہت دیر میںہوا کہ جو شخص جس کام کے لئے پیدا ہوتا ہے، بس وہی کر سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے تو وہ معدوم ہوجاتا ہے۔ میں آئیندہ کے پروگراموں میںشاید اس بات کا ذکر کروں کہ میںآپ کے بغیر اور آپ کی معیت کے بغیراور آپ سے دور کس طرح سے معدوم ہوتا ہوں۔ ہمارے فیصل آباد گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس ایک جیبی گھڑی تھی۔ اس اعلٰی درجے کی گھڑی کے ساتھ ایک سنہری زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ یہ وہ گھڑی تھی جس کا ڈائل بڑا سفید اور اس کے ہندسے بڑے بڑے اور سیاہ رنگ کے تھے۔ اس گھڑی کے زور پر اور اس کی وجہ سے سارے سکول کا کام چلتا تھا اور اسی گھڑی کے حوالے سے ارد گرد کے لوگ اپنی گھڑیاں ٹھیک کیا کرتے تھے لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ ہر روز گھنٹہ گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب زنجیر کھینچ کر اپنی گھڑی کا وقت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے ملاتے تھے اور دونوںمیں مطابقت پیدا کرتے تھے۔ پھر ایک روز یہ ہوا کہ گھڑی کے دل میںخیال آیا کہ کیوںنہ میںبھی گھنٹہ گھر کے مقام پر پہنچوں اور لوگوںکی خدمت کروں۔ ان کو وقت بتاؤں اور ان کے لئے وہی کچھ اور اتنی ہی خوبیاں لا کر ان کی جھولی میںڈالوںجو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ان کو عطا کرتا ہے۔ سنتے ہیں کہ کسی طلسمی یا کسی روحانی زور سےوہ گھڑی کہ ان کی جیب سے اچھلی اور گھنٹہ گھر کے ماتھے پر جا کر چپک گئی اور جونہی وہ اس مقام پر پہنچی وہ اپنی ہستی باکل کھو بیٹھی اور معدوم ہو گئی اور وہ لوگوں کو وقت بتا کر جو پہلے خدمت کیا کرتی تھی اس سے بھی دور نکل گئی اور اتنی اونچائی پر پہنچ گئی کہ اس اونچائی پر اسے پہنچنا نہیں چاہیئے تھا۔ اسی انداز میںمیرے ساتھ بھی کچھ ویسا ہی ہوا۔ میں سمجھا کہ میںآپ کی ایک اور طریقے سے اور ایک بلندی یا رفعت پر پہنچ کر خدمت کر سکوں گا لیکن وہ بات کچھ ٹھیک نہ نکلی اور میں لوٹ کر پھر آپ کی خدمت میںحاضر ہو گیا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب یہ ہرگز ہرگزنہیںہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان فراق و جدائی رہی۔ اس میںہم ایک دوسرے کو فراموش کرتے اور چلے گئے ایسا نہیں ہے۔ ایک روز جب میں بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا تو میں اس بات پر شرمندہ تھا کہ میںبڑی دیر کے بعد بابا جی کو مل رہا تھا۔ تقریباً چھ ماہ میں ان سے نہیںمل سکا تھا۔ میرا کام کچھ اس نوعیت کا تھا کہ مجھے ملک میںٹھہرنا نصیب نہ ہوا اور مجھےایران اور ترکی میںکچھ کام کرنا ہوتے تھے۔ وہ آر-سی-ڈی کا زمانہ تھا۔ جب میں باباجی کے پاس گیا اور بیشتر اس کے کہ میں ان سے معذرت کا کوئی جملہ بولتا، انہوںنے خود سے کہنا شروع کر دیا کہ “یہیں ہوتے ہو، ہمارے درمیان ہی رہتے ہو۔ ہم سے ملتے جلتے ہو۔ باوصف اس کے کہ تم یہاںنہیں آئے لیکن نہ ہم نے تمہیںفراموش کیا، نہ ہم تمہاری یاد بھولے اور عاجز آئے۔“ میںاپنی جگہ پر شرمندہ اور ششدر کھڑا تھا، کہنے لگے، جس طرح گاڑی میں سفر کرتے ہوئی، ہوائی جہاز میںبیٹھے ہوئے زندگی کے مراحل طے کرتے ہوئے، سڑکوں پر چلتے ہوئی، محفل مشاعرہ یا گانے سنتے ہوئے آپ کبھی بھی اپنے دل سے، اپنے گردوں اور جگر کی کارکردگی سے واقف نہیں ہوتے لیکن وہ موجود ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہم بھی ایک دوسرے کی فراموشی میں زندہ تھے اور ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ یہ مت سمجھا کیجئے کہ کسی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور رہے، یا ہم نے ایک دوسرے کو دور سمجھا ہے۔ مجھے اس سے ایک اور عجیب سی بات جس کا بظاہر تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونہی میرے ذہن میں آئی کہ میری نواسی کا بچہ باہر کوٹھی کی لان میں کھیل رہا تھا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے۔ میں اپنی نواسی سے باتیںکرتا رہا، اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میںلتھڑا ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پر کیچڑ اور اس کے منہ پر “چھنچھیاں“(خراب منہ اور بہتی ناک) لگی ہوئی تھیں، وہ اندر آیا اور اس نے دونوں ہاتھ محبت سے اوپر اٹھا کر کہا، امی مجھے ایک “جپھی“ اور ڈالیں۔ پہلی “جپھی“ ختم ہو گئی ہے تو میری نواسی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا ہوگا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہوگی جو اسے ایک “جپھی“ نے عطا کی ہوگی اور جب اس نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی بیٹری کو ری چارج کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جھٹ سے اندر آگیا۔ میرے اور آپ کے درمیان بھی یہ بیٹری اپنا کام کرتی رہی، گو نہ مجھے اس کا احساس رہا اور نہ شاید آپ کو اس قدر شدت سے رہا لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اور ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چلتے رہے۔ زندگی کے یہ معاملات بڑے عجب ہوتے ہیں۔ میںآپ سے وعدہ کرتاہوں کہ میںبہت دیر تک اور جیسے ہمارے بزرگ کہا کرتے ہیں “بشرطٍ زندگی“ ایک دوسرے کے ہم ساتھ رہیں گے اور اس پروگرام کی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسے پہلے پروگراموں میں رہی اور جن میںآپ کی شمولیت میرے لئے فخر کا باعث تھی اور آپ نے مجھے بڑی محبت عطا کی۔ یہ بات آپ بالکل اپنے ذہن میںرکھئے گا کہ باوصف اس کے کہ چیزیں نظر نہیں آتیں، دکھائی نہیں دیتیں لیکن موجود رہتی ہیں۔ فرانس کا ایک بہت بڑا رائٹر جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں، وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک فرانس سے غیر حاضر رہااورجب وہ اس طویل غیر حاضری کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور سیدھا اپنے اس محبوب گاؤں پہنچا جہاںاس کا بچپن گزرا تھا۔ رائٹر کفسو کہتا ہے کہ جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اس پر ایک عجیب طرحکی کیفیت طاری ہو گئی اور مجھے وہ سب چیزیں یاد آنے لگیں جو بچپن میںمیںنے یہاںدیکھی تھیں، لیکن ان کا نقشہ اس قدر واضحنہیں تھا جیسا کہ ان کا نقشہ اس وقت واضح تھا۔ جب وہ چیزیں میرے قریب سے گزرتی تھیں اور میرے پاس تھیں، کفسو کہتا ہے کہ ایک عجیب واقعہ اسے یاد آیا کہ ایک ندی کی چھوٹی سی پلی پر سے جب وہ گزرا کرتا تھا تو اس کے داہنے ہاتھ پتھروں کی ایک دیوار تھی جس پر غیر ارادی طور پر میں اپنی انگلیاں اور ہاتھ لگاتا ہوا چلتا جاتا تھا اور وہ آٹھ دس فٹ لمبی دیوار میرے ہاتھوں کے لمس اور میں اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا۔ وہ کہنے لگا کہ میرا جی چاہا کہ میںاس پُلی پر سے پھر سے گزروں اور اپنے بچپن کی یاد کو ویسے ہی تازہ کروں لیکن جب میں نے دیوار پر ہاتھ رکھا تو میںنے اس لمس کو محسوس نہ کیا جو وہ پتھر کی دیوار مجھے میرے بچپن میں عطا کیا کرتی تھی۔ میںاس دیوار پر ہاتھ پھیرتا ہوا پورے کا پورا راستہ عبور کر گیا لیکن وہ محبت اور چاہت جو پتھر کی دیوار اور میرے زندہ جسم کے درمیان تھی، وہ مجھے میسر نہ آ سکی۔ میںپھر پلٹا لوٹ کے پھر اسی طرحگزرا۔ پھر میں اتنا جھکا جتنا اس زمانے میں میرا قد ہوا کرتا تھا اور پھر میںنے اس پر ہاتھ رکھا اور میںاس قد کے ساتھ جب میںچھٹی ساتویںمیںپڑھتا تھا، چلا تو میںنے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے میری روح اور جسم کو سگنل دیا جو سگنل میںآج تک اپنی تحویل میںکسی بھی چیز میںنہیں لا سکا۔ اس لمس کو اپنی روح پر طاری کرتے ہوئی یوںلگا جیسے میری ماںصحن خانہ میںکھڑی مجھے پکار رہی ہو اور اس کے ہاتھ میںوہ Cookies ہوں جو وہ مجھے سکول سے واپسی پر دیا کرتی تھی(وہ ہاتھ کے لمس کا ذکر کر رہا ہے کہ اسے ماںکے بدن سے اور اس کے جسم سے لہسن اور پیاز کی خوشبو آ رہی ہے۔ ساتھ میری بہن کھڑی ہے اور مجھے اپنی بہن کے سارے وجود کی خوشبو آ رہی ہے، جو وہ بچپن میںمحسوس کیا کرتا تھا)۔
میرے دیوار کے لمس کے ساتھ مجھے وہ سارا اپنا بچپن یاد آگیا اور سارا منظر آنکھوںکے سامنے فلم کی طرحچلنے لگا اور میںلوٹ کر اس زمانے میںچلا گیا جب میںچھوٹا سا تھا اور اس دیوار کے لمس کی یاد کے سہارے اور اس Imaginationکے زور پر سارے کا سارا سین میرے وجود پر حقیقت کی طرح طاری ہو گیا اور میںوہاںسے گزر گیا۔ فرانسیسی رائٹر کی باتوں پر مجھے تھوڑی سی شرمندگی بھی ہوئی کیونکہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ درگاہوں پہ آتے ہیں اور وہ اپنے بزرگ کی قبر کے ساتھ کھڑے ہو کر چوکھٹوں پر ہاتھ ملتے ہیں؛ قبر کے تابوت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سنگٍ مرمر کا جو چوکھٹا ہوتا ہے، اسے چھونے کی کوشش کرتے ہین۔ ہم ان لوگوں کی وہ حرکت سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن جان کفسو کی یہ بات پڑھنے کےبعد اب میںکچھ کچھ ان لوگوں کا ساتھی ہو گیا ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ انہیں مرقد کے چوکھٹے پر یا کھڑکی کی چوکھٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ اپنا پن محسوس ہوتا ہو، کچھ روحانی رابطہ، کچھ روحانی نسبت، ان کے ساتھ قائم ہوتی ہو۔ میرا خیا ل ہے انہیں منع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس قدر تنگ نظر، دقیا نوس اور پرانی وضع کے لوگ ہیں۔ انہیں چھونے دیجئے۔ ان کو ہاتھ لگانے دیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اس طرح سے ہاتھ لگانے میں، چھونے میںکچھ محسوس ہوتا ہو۔ جس طرحمیری نواسی کے بیٹے نے کہا تھا کہ مجھے ایک “جھپی“ اور ڈالیں۔ میری امی کیونکہ میری پچھلی “جپھی“ ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح سے بہت سے لوگ ان یادوں کے سہارے کچھ محسوس کرتے ہیںجو دماغ کے نہاںخانے سے نہیں آتی ہیںبلکہ جسم کے ساتھ ان کا زیادہ اور گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ لمس کے ساتھ اور ہاتھ کی لکیروںکے ساتھ اور انگلیوں کے نشانوںکے ساتھ وجود پر وارد ہوتی ہیں۔ میں اس لمبی بات کے ذریعے آپ کی خدمت میںیہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب کبھی آپ ملے، نظر آئے یا نہ آئے یا میںکبھی آپ کے شہر میں سے گزرا یا شہر کے اوپر سے گزرا تو وہ ساری باتیں اور وہ ساری یادیں جو میرے اور آپ کے درمیان تھیں یا نہیں تھیں لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ “زاویے“ کی نسبت سے وابستہ تھے، وہ یادیں لوٹ لوٹ کر ذہن میں آتی رہیں اور میں آپ سے ملتا رہا جس طرح سے آپ اس پروگرام کے لئے مجھ سے ملتے رہے۔ ظاہری طور پر، باطنی طور پر یا معنوی طور پر، اس طرحمیںبھی آپ کے ساتھ وابستہ رہا اور ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ کبھی نہ ٹوٹا اور میں اب پھر لوٹ کر آپ کی خدمت میں اسی طرح حاضر ہوتا رہوں گا۔ہمارے ماسٹر الہ داد کے بشیرے کی طرح ۔ہمارے ماسٹر الہ داد تھے۔وہ پڑھاتے تو فیروز پور میں تھے لیکن وہ قصور کے رہنے والے تھے۔وہ پڑھانے کے بعد ہر روز گاڑی پکڑ کر شام کو گھر چلے جاتے تھے۔ ان کا ایک بڑا لاڈلا بیٹا تھا اور بشیر اس کا نام تھا اور مجھے درمیان میں ہی ایک اور بات یاد آ گئی۔ اگر کبھی آپ قصور گئے ہوں یا آپ کا وہاںجانے کا ارادہ ہو تو( میںنے یہ بات محسوس کی ہے، آپ بھی کر کے دیکھئے گا) آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ قصور میںہر تیسرے بچے کا نام بشیر ہوتا ہے۔اگر آپ راستہ بھول جائیں یا کچھ پوچھنا چاہیں اور قصور کے کسی بازار میں کھڑے ہو کر بشیر کہیں تو تین چار آدمی ضرور مڑ کر دیکھیں گے اور آپ ان سے رابطہ کر کے اپنا مسئلہ ان کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ہمارے ماسٹر صاحب اپنے بیٹے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ وہ بڑا غصے والا بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ لاڈلا بچہ تھا۔ وہ معمولی سی بات پر بھی ناراض ہو جاتا ہوگا اور وہ گھر والوں سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلیتا ہوگا۔ ماسٹر صاحب اس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک روز وہ ان سے ایسا ناراض ہوا کہ گھر سے بھاگ گیا اور پھر ملا ہی نہیں۔ ماسٹر صاحب کئی ماہ اس کی تلاش کرتے رہے۔ وہ ٹیچر آدمی تھے اور استادوں کا سوچنے کا انداز بڑا مختلف ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھ سے پرانی وضع سے خوش خط اشتہار لکھ کر بابا بلھے شاہ رح کے مزار کے باہر گیٹ پر چسپاں کر دیا جس پر مارکر سے لکھا ہوا تھا کہ “پیارے بیٹے بشیر گھر واپس آجاؤ۔ تمہاری جدائی میںمیںیہ وقت آسانی اور سکون کے ساتھ نہیں گزار سکتا۔“ وہ اشتہار چسپاں کر کے ماسٹر صاحب گھر آگئے۔ اگلے دن ماسٹر صاحب اس خیال کے پیش نظر کہ جہاںمیں نے اشتہار لگایا ہے وہاں میرا بیٹا ضرور آتا ہوگا، درگاہ گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو ان کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہاںسات بشیرے بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان کا بشیرا وہاںنہیںتھا۔ ماسٹر صاحب پریشانی کے عالم میںاور اس خیال سے کہ شاید کسی روز ان کا بشیرا بھی وہاںآجائے، بار بار وہاںکا چکر لگاتے رہے اور ماسٹر صاحب نے ایک دن لڈو بانٹے تو ہمیں پتہ چلا کہ ان کا بشیرا واپس آ گیا ہے۔ میںبھی آپ سے یہی کہنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کا بشیرا واپس آ گیا ہے اور اب کبھی ناراضہو کر، ناخوش ہو کر خوشی کی ترنگ میںآپ کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ میرا اور آپ کا بڑا گہرا، بڑا پرانا بڑی محبتوںکا رشتہ ہے اور اپنی اس غلطی اور کوتاہی کی معافی مانگتا ہوں جو میرے اور آپ کے درمیان ایک وسیع خلیج بن کر چند دن حائل رہی، آئیندہ انشاءاللہ ایسا نہیں ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے بشیرے کی اس بات پر یقین آ گیا ہوگا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے اور آسانیاںتقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
میںایک طویل مدت اور لمبے عرصے کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور آپ یہ ملاحظہ فرما رہے ہو ں گے کہ اب “زاویہ“ کا رنگ کچھ مختلف ہے اور اس کی ہئیت میںپہلے کے مقابلے میںتبدیلی آ گئی ہے۔ اس طوی۔ مدت اور اس قدر لمبی مدت کی غیر حاضری کی کیا وجہ ہے؟ اس کا میںہی سراسر ذمہ دار ہوں اور میںسمجھتا ہوں کہ یہ کوتاہی میری طرف سے ہوئی ہے۔ مجھے خیال آیا اور ایک مقام پر میں نے سوچا کہ شاید میں زاویےکےپروگرام سے بہترطور پر آپ کی خدمت کر سکتا ہوں اور کسی ایسے مقام پر پہنچ کر آپ کی دستگیری کروں جہاںپر مجھے پہنچ جانا چاہئے تھا لیکن یہ خیال باطل تھا اور یہ بات میرے نزدیک درست نہیں تھی لیکن اس کا احساس مجھے بہت دیر میںہوا کہ جو شخص جس کام کے لئے پیدا ہوتا ہے، بس وہی کر سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے تو وہ معدوم ہوجاتا ہے۔ میں آئیندہ کے پروگراموں میںشاید اس بات کا ذکر کروں کہ میںآپ کے بغیر اور آپ کی معیت کے بغیراور آپ سے دور کس طرح سے معدوم ہوتا ہوں۔ ہمارے فیصل آباد گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس ایک جیبی گھڑی تھی۔ اس اعلٰی درجے کی گھڑی کے ساتھ ایک سنہری زنجیر بندھی ہوئی تھی۔ یہ وہ گھڑی تھی جس کا ڈائل بڑا سفید اور اس کے ہندسے بڑے بڑے اور سیاہ رنگ کے تھے۔ اس گھڑی کے زور پر اور اس کی وجہ سے سارے سکول کا کام چلتا تھا اور اسی گھڑی کے حوالے سے ارد گرد کے لوگ اپنی گھڑیاں ٹھیک کیا کرتے تھے لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ ہر روز گھنٹہ گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب زنجیر کھینچ کر اپنی گھڑی کا وقت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے ملاتے تھے اور دونوںمیں مطابقت پیدا کرتے تھے۔ پھر ایک روز یہ ہوا کہ گھڑی کے دل میںخیال آیا کہ کیوںنہ میںبھی گھنٹہ گھر کے مقام پر پہنچوں اور لوگوںکی خدمت کروں۔ ان کو وقت بتاؤں اور ان کے لئے وہی کچھ اور اتنی ہی خوبیاں لا کر ان کی جھولی میںڈالوںجو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ان کو عطا کرتا ہے۔ سنتے ہیں کہ کسی طلسمی یا کسی روحانی زور سےوہ گھڑی کہ ان کی جیب سے اچھلی اور گھنٹہ گھر کے ماتھے پر جا کر چپک گئی اور جونہی وہ اس مقام پر پہنچی وہ اپنی ہستی باکل کھو بیٹھی اور معدوم ہو گئی اور وہ لوگوں کو وقت بتا کر جو پہلے خدمت کیا کرتی تھی اس سے بھی دور نکل گئی اور اتنی اونچائی پر پہنچ گئی کہ اس اونچائی پر اسے پہنچنا نہیں چاہیئے تھا۔ اسی انداز میںمیرے ساتھ بھی کچھ ویسا ہی ہوا۔ میں سمجھا کہ میںآپ کی ایک اور طریقے سے اور ایک بلندی یا رفعت پر پہنچ کر خدمت کر سکوں گا لیکن وہ بات کچھ ٹھیک نہ نکلی اور میں لوٹ کر پھر آپ کی خدمت میںحاضر ہو گیا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب یہ ہرگز ہرگزنہیںہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان فراق و جدائی رہی۔ اس میںہم ایک دوسرے کو فراموش کرتے اور چلے گئے ایسا نہیں ہے۔ ایک روز جب میں بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا تو میں اس بات پر شرمندہ تھا کہ میںبڑی دیر کے بعد بابا جی کو مل رہا تھا۔ تقریباً چھ ماہ میں ان سے نہیںمل سکا تھا۔ میرا کام کچھ اس نوعیت کا تھا کہ مجھے ملک میںٹھہرنا نصیب نہ ہوا اور مجھےایران اور ترکی میںکچھ کام کرنا ہوتے تھے۔ وہ آر-سی-ڈی کا زمانہ تھا۔ جب میں باباجی کے پاس گیا اور بیشتر اس کے کہ میں ان سے معذرت کا کوئی جملہ بولتا، انہوںنے خود سے کہنا شروع کر دیا کہ “یہیں ہوتے ہو، ہمارے درمیان ہی رہتے ہو۔ ہم سے ملتے جلتے ہو۔ باوصف اس کے کہ تم یہاںنہیں آئے لیکن نہ ہم نے تمہیںفراموش کیا، نہ ہم تمہاری یاد بھولے اور عاجز آئے۔“ میںاپنی جگہ پر شرمندہ اور ششدر کھڑا تھا، کہنے لگے، جس طرح گاڑی میں سفر کرتے ہوئی، ہوائی جہاز میںبیٹھے ہوئے زندگی کے مراحل طے کرتے ہوئے، سڑکوں پر چلتے ہوئی، محفل مشاعرہ یا گانے سنتے ہوئے آپ کبھی بھی اپنے دل سے، اپنے گردوں اور جگر کی کارکردگی سے واقف نہیں ہوتے لیکن وہ موجود ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہم بھی ایک دوسرے کی فراموشی میں زندہ تھے اور ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ یہ مت سمجھا کیجئے کہ کسی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور رہے، یا ہم نے ایک دوسرے کو دور سمجھا ہے۔ مجھے اس سے ایک اور عجیب سی بات جس کا بظاہر تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونہی میرے ذہن میں آئی کہ میری نواسی کا بچہ باہر کوٹھی کی لان میں کھیل رہا تھا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ وہ باہر کھیل رہا ہے۔ میں اپنی نواسی سے باتیںکرتا رہا، اچانک دروازہ کھلا اور وہ بچہ مٹی میںلتھڑا ہوئے ہاتھوں اور کپڑوں پر کیچڑ اور اس کے منہ پر “چھنچھیاں“(خراب منہ اور بہتی ناک) لگی ہوئی تھیں، وہ اندر آیا اور اس نے دونوں ہاتھ محبت سے اوپر اٹھا کر کہا، امی مجھے ایک “جپھی“ اور ڈالیں۔ پہلی “جپھی“ ختم ہو گئی ہے تو میری نواسی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا باوصف اس کے کہ وہ بچہ باہر کھیلتا رہا ہوگا اور اس کے اندر وہ گرماہٹ اور حدت موجود رہی ہوگی جو اسے ایک “جپھی“ نے عطا کی ہوگی اور جب اس نے محسوس کیا کہ مجھے اپنی بیٹری کو ری چارج کرنے کی ضرورت ہے تو وہ جھٹ سے اندر آگیا۔ میرے اور آپ کے درمیان بھی یہ بیٹری اپنا کام کرتی رہی، گو نہ مجھے اس کا احساس رہا اور نہ شاید آپ کو اس قدر شدت سے رہا لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اور ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چلتے رہے۔ زندگی کے یہ معاملات بڑے عجب ہوتے ہیں۔ میںآپ سے وعدہ کرتاہوں کہ میںبہت دیر تک اور جیسے ہمارے بزرگ کہا کرتے ہیں “بشرطٍ زندگی“ ایک دوسرے کے ہم ساتھ رہیں گے اور اس پروگرام کی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسے پہلے پروگراموں میں رہی اور جن میںآپ کی شمولیت میرے لئے فخر کا باعث تھی اور آپ نے مجھے بڑی محبت عطا کی۔ یہ بات آپ بالکل اپنے ذہن میںرکھئے گا کہ باوصف اس کے کہ چیزیں نظر نہیں آتیں، دکھائی نہیں دیتیں لیکن موجود رہتی ہیں۔ فرانس کا ایک بہت بڑا رائٹر جسے میں دل و جان سے پسند کرتا ہوں، وہ تقریباً تیس پینتیس برس تک فرانس سے غیر حاضر رہااورجب وہ اس طویل غیر حاضری کے بعد لوٹ کر اپنے وطن آیا اور سیدھا اپنے اس محبوب گاؤں پہنچا جہاںاس کا بچپن گزرا تھا۔ رائٹر کفسو کہتا ہے کہ جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اس پر ایک عجیب طرحکی کیفیت طاری ہو گئی اور مجھے وہ سب چیزیں یاد آنے لگیں جو بچپن میںمیںنے یہاںدیکھی تھیں، لیکن ان کا نقشہ اس قدر واضحنہیں تھا جیسا کہ ان کا نقشہ اس وقت واضح تھا۔ جب وہ چیزیں میرے قریب سے گزرتی تھیں اور میرے پاس تھیں، کفسو کہتا ہے کہ ایک عجیب واقعہ اسے یاد آیا کہ ایک ندی کی چھوٹی سی پلی پر سے جب وہ گزرا کرتا تھا تو اس کے داہنے ہاتھ پتھروں کی ایک دیوار تھی جس پر غیر ارادی طور پر میں اپنی انگلیاں اور ہاتھ لگاتا ہوا چلتا جاتا تھا اور وہ آٹھ دس فٹ لمبی دیوار میرے ہاتھوں کے لمس اور میں اس کے لمس کو محسوس کرتا رہا۔ وہ کہنے لگا کہ میرا جی چاہا کہ میںاس پُلی پر سے پھر سے گزروں اور اپنے بچپن کی یاد کو ویسے ہی تازہ کروں لیکن جب میں نے دیوار پر ہاتھ رکھا تو میںنے اس لمس کو محسوس نہ کیا جو وہ پتھر کی دیوار مجھے میرے بچپن میں عطا کیا کرتی تھی۔ میںاس دیوار پر ہاتھ پھیرتا ہوا پورے کا پورا راستہ عبور کر گیا لیکن وہ محبت اور چاہت جو پتھر کی دیوار اور میرے زندہ جسم کے درمیان تھی، وہ مجھے میسر نہ آ سکی۔ میںپھر پلٹا لوٹ کے پھر اسی طرحگزرا۔ پھر میں اتنا جھکا جتنا اس زمانے میں میرا قد ہوا کرتا تھا اور پھر میںنے اس پر ہاتھ رکھا اور میںاس قد کے ساتھ جب میںچھٹی ساتویںمیںپڑھتا تھا، چلا تو میںنے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے محسوس کیا اور میرے ہاتھ نے میری روح اور جسم کو سگنل دیا جو سگنل میںآج تک اپنی تحویل میںکسی بھی چیز میںنہیں لا سکا۔ اس لمس کو اپنی روح پر طاری کرتے ہوئی یوںلگا جیسے میری ماںصحن خانہ میںکھڑی مجھے پکار رہی ہو اور اس کے ہاتھ میںوہ Cookies ہوں جو وہ مجھے سکول سے واپسی پر دیا کرتی تھی(وہ ہاتھ کے لمس کا ذکر کر رہا ہے کہ اسے ماںکے بدن سے اور اس کے جسم سے لہسن اور پیاز کی خوشبو آ رہی ہے۔ ساتھ میری بہن کھڑی ہے اور مجھے اپنی بہن کے سارے وجود کی خوشبو آ رہی ہے، جو وہ بچپن میںمحسوس کیا کرتا تھا)۔
میرے دیوار کے لمس کے ساتھ مجھے وہ سارا اپنا بچپن یاد آگیا اور سارا منظر آنکھوںکے سامنے فلم کی طرحچلنے لگا اور میںلوٹ کر اس زمانے میںچلا گیا جب میںچھوٹا سا تھا اور اس دیوار کے لمس کی یاد کے سہارے اور اس Imaginationکے زور پر سارے کا سارا سین میرے وجود پر حقیقت کی طرح طاری ہو گیا اور میںوہاںسے گزر گیا۔ فرانسیسی رائٹر کی باتوں پر مجھے تھوڑی سی شرمندگی بھی ہوئی کیونکہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ درگاہوں پہ آتے ہیں اور وہ اپنے بزرگ کی قبر کے ساتھ کھڑے ہو کر چوکھٹوں پر ہاتھ ملتے ہیں؛ قبر کے تابوت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور سنگٍ مرمر کا جو چوکھٹا ہوتا ہے، اسے چھونے کی کوشش کرتے ہین۔ ہم ان لوگوں کی وہ حرکت سخت ناپسند کرتے ہیں لیکن جان کفسو کی یہ بات پڑھنے کےبعد اب میںکچھ کچھ ان لوگوں کا ساتھی ہو گیا ہوں۔ بہت ممکن ہے کہ انہیں مرقد کے چوکھٹے پر یا کھڑکی کی چوکھٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کچھ اپنا پن محسوس ہوتا ہو، کچھ روحانی رابطہ، کچھ روحانی نسبت، ان کے ساتھ قائم ہوتی ہو۔ میرا خیا ل ہے انہیں منع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کے بارے میں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیئے کہ یہ کس قدر تنگ نظر، دقیا نوس اور پرانی وضع کے لوگ ہیں۔ انہیں چھونے دیجئے۔ ان کو ہاتھ لگانے دیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اس طرح سے ہاتھ لگانے میں، چھونے میںکچھ محسوس ہوتا ہو۔ جس طرحمیری نواسی کے بیٹے نے کہا تھا کہ مجھے ایک “جھپی“ اور ڈالیں۔ میری امی کیونکہ میری پچھلی “جپھی“ ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح سے بہت سے لوگ ان یادوں کے سہارے کچھ محسوس کرتے ہیںجو دماغ کے نہاںخانے سے نہیں آتی ہیںبلکہ جسم کے ساتھ ان کا زیادہ اور گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ لمس کے ساتھ اور ہاتھ کی لکیروںکے ساتھ اور انگلیوں کے نشانوںکے ساتھ وجود پر وارد ہوتی ہیں۔ میں اس لمبی بات کے ذریعے آپ کی خدمت میںیہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب کبھی آپ ملے، نظر آئے یا نہ آئے یا میںکبھی آپ کے شہر میں سے گزرا یا شہر کے اوپر سے گزرا تو وہ ساری باتیں اور وہ ساری یادیں جو میرے اور آپ کے درمیان تھیں یا نہیں تھیں لیکن ہم ایک دوسرے کے ساتھ “زاویے“ کی نسبت سے وابستہ تھے، وہ یادیں لوٹ لوٹ کر ذہن میں آتی رہیں اور میں آپ سے ملتا رہا جس طرح سے آپ اس پروگرام کے لئے مجھ سے ملتے رہے۔ ظاہری طور پر، باطنی طور پر یا معنوی طور پر، اس طرحمیںبھی آپ کے ساتھ وابستہ رہا اور ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ کبھی نہ ٹوٹا اور میں اب پھر لوٹ کر آپ کی خدمت میں اسی طرح حاضر ہوتا رہوں گا۔ہمارے ماسٹر الہ داد کے بشیرے کی طرح ۔ہمارے ماسٹر الہ داد تھے۔وہ پڑھاتے تو فیروز پور میں تھے لیکن وہ قصور کے رہنے والے تھے۔وہ پڑھانے کے بعد ہر روز گاڑی پکڑ کر شام کو گھر چلے جاتے تھے۔ ان کا ایک بڑا لاڈلا بیٹا تھا اور بشیر اس کا نام تھا اور مجھے درمیان میں ہی ایک اور بات یاد آ گئی۔ اگر کبھی آپ قصور گئے ہوں یا آپ کا وہاںجانے کا ارادہ ہو تو( میںنے یہ بات محسوس کی ہے، آپ بھی کر کے دیکھئے گا) آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ قصور میںہر تیسرے بچے کا نام بشیر ہوتا ہے۔اگر آپ راستہ بھول جائیں یا کچھ پوچھنا چاہیں اور قصور کے کسی بازار میں کھڑے ہو کر بشیر کہیں تو تین چار آدمی ضرور مڑ کر دیکھیں گے اور آپ ان سے رابطہ کر کے اپنا مسئلہ ان کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ ہمارے ماسٹر صاحب اپنے بیٹے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ وہ بڑا غصے والا بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ لاڈلا بچہ تھا۔ وہ معمولی سی بات پر بھی ناراض ہو جاتا ہوگا اور وہ گھر والوں سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلیتا ہوگا۔ ماسٹر صاحب اس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک روز وہ ان سے ایسا ناراض ہوا کہ گھر سے بھاگ گیا اور پھر ملا ہی نہیں۔ ماسٹر صاحب کئی ماہ اس کی تلاش کرتے رہے۔ وہ ٹیچر آدمی تھے اور استادوں کا سوچنے کا انداز بڑا مختلف ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھ سے پرانی وضع سے خوش خط اشتہار لکھ کر بابا بلھے شاہ رح کے مزار کے باہر گیٹ پر چسپاں کر دیا جس پر مارکر سے لکھا ہوا تھا کہ “پیارے بیٹے بشیر گھر واپس آجاؤ۔ تمہاری جدائی میںمیںیہ وقت آسانی اور سکون کے ساتھ نہیں گزار سکتا۔“ وہ اشتہار چسپاں کر کے ماسٹر صاحب گھر آگئے۔ اگلے دن ماسٹر صاحب اس خیال کے پیش نظر کہ جہاںمیں نے اشتہار لگایا ہے وہاں میرا بیٹا ضرور آتا ہوگا، درگاہ گئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو ان کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہاںسات بشیرے بیٹھے ہوئے تھے لیکن ان کا بشیرا وہاںنہیںتھا۔ ماسٹر صاحب پریشانی کے عالم میںاور اس خیال سے کہ شاید کسی روز ان کا بشیرا بھی وہاںآجائے، بار بار وہاںکا چکر لگاتے رہے اور ماسٹر صاحب نے ایک دن لڈو بانٹے تو ہمیں پتہ چلا کہ ان کا بشیرا واپس آ گیا ہے۔ میںبھی آپ سے یہی کہنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کا بشیرا واپس آ گیا ہے اور اب کبھی ناراضہو کر، ناخوش ہو کر خوشی کی ترنگ میںآپ کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ میرا اور آپ کا بڑا گہرا، بڑا پرانا بڑی محبتوںکا رشتہ ہے اور اپنی اس غلطی اور کوتاہی کی معافی مانگتا ہوں جو میرے اور آپ کے درمیان ایک وسیع خلیج بن کر چند دن حائل رہی، آئیندہ انشاءاللہ ایسا نہیں ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے بشیرے کی اس بات پر یقین آ گیا ہوگا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے اور آسانیاںتقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ