آصف شفیع
محفلین
زاہد منیر عامر صاحب کی ایک نظم احباب کی خدمت میں حاضر ہے۔یہ نظم ً ان کی کتاب" نظم مجھ سے کلام کرتی ہے" میں شامل ہے
آتے دنوں کیلیے ایک نظم-------از زاہد منیر عامر
کہوں اک نظم جس میں پھول کھلتے ہوں
کہوں اک نظم
جس میں ان دنوں کی تابناکی کے ستارے جگمگاتے ہوں
جنھیں آنا ہے
اور لمحوں کی مٹھی سے گزرکر وقت کو تسخیر کرنا ہے
کہوں اک نظم
جس میں روشنی ہو
وہ شعائیں جو تمہاری آنکھ کی پتلی سے نکلیں
وہ اجالیں آسمانوں اور زمینوں کو
ندامت کا سیاہ ملبوس پہنا دیں
ستاروں، کہکشاؤں کو
تمہاری آنکھ کی پتلی
مری ظلمت میں ڈوبے پوربوں کا، پچھموں کا نور بن جائے
کہوں اک نظم
جو آواز کی افسردگی کو بانکپن بخشے
اور اس کی نرم لہروں کو طلا طم آشنا کر دے
کہوں اک نظم
جو تصویر ہو آتے دنوں کی۔۔۔۔۔
چمکتا ہو تمہارا شادماں چہرہ
جبیں میں نور، آنکھوں میں چمک، ہونٹوں پہ میٹھی مسکراہٹ
جلوہ آرا ہو
آتے دنوں کیلیے ایک نظم-------از زاہد منیر عامر
کہوں اک نظم جس میں پھول کھلتے ہوں
کہوں اک نظم
جس میں ان دنوں کی تابناکی کے ستارے جگمگاتے ہوں
جنھیں آنا ہے
اور لمحوں کی مٹھی سے گزرکر وقت کو تسخیر کرنا ہے
کہوں اک نظم
جس میں روشنی ہو
وہ شعائیں جو تمہاری آنکھ کی پتلی سے نکلیں
وہ اجالیں آسمانوں اور زمینوں کو
ندامت کا سیاہ ملبوس پہنا دیں
ستاروں، کہکشاؤں کو
تمہاری آنکھ کی پتلی
مری ظلمت میں ڈوبے پوربوں کا، پچھموں کا نور بن جائے
کہوں اک نظم
جو آواز کی افسردگی کو بانکپن بخشے
اور اس کی نرم لہروں کو طلا طم آشنا کر دے
کہوں اک نظم
جو تصویر ہو آتے دنوں کی۔۔۔۔۔
چمکتا ہو تمہارا شادماں چہرہ
جبیں میں نور، آنکھوں میں چمک، ہونٹوں پہ میٹھی مسکراہٹ
جلوہ آرا ہو