منیب احمد فاتح
محفلین
زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے یہ دیوانے آدمی ہیں
غیروں کی دوستی پر کیوں اعتماد کیجے
یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں
جو آدمی پہ گزری وہ اک سوا تمہارے
کیا جی لگا کے سنتے افسانے آدمی ہیں
کیا چور ہیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے
کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں
مے بوند بھر پلا کر کیا ہنس رہا ہے ساقی
بھر بھر کے پیتے آخر پیمانے آدمی ہیں
تم نے ہمارے دل میں گھر کر لیا تو کیا ہے
آباد کرتے آخر ویرانے آدمی ہیں
جب داورِ قیامت پوچھے گا تم پہ رکھ کر
کہہ دیں گے صاف ہم تو بیگانے آدمی ہیں
ناصح سے کوئی کہہ دے کیجے کلام ایسا
حضرت کو تاکہ کوئی یہ جانے آدمی ہیں
میں وہ بشر کہ مجھ سے ہر آدمی کو نفرت
تم شمع وہ کہ تم پر پروانے آدمی ہیں
محفل بھری ہوئی ہے سودائیوں سے لیکن
اس غیرتِ پری پر پروانے آدمی ہیں
شاباش داغ تجھ کو کیا تیغِ عشق کھائی
جی کرتے ہیں وہی جو مردانے آدمی ہیں