زبان اردو سے سوال

ارتضی عافی

محفلین
السلام و علیکم آپ تمام احباب سے گزارش ہے ہمیں سمجھا دیں کہ تمھاری تمھارا تمھارے میں کیا فرق ہیں اور اسی طرح تیرا تیری تیرے تھا تھی تھے تھیں اور اسی طرح سے آپ تم تجھ آپ سے بات کرتا ہوں تم سے بات کرتا ہوں تجھ سے بات کرتا ہوں اسی طرح کے کا کی کے اس بارے میں کوئی تفصیل سے اگر سمجھا دیں اور ان کے استعمال کے بارے میں بھی بتایا جائے تشکر حسان خان بھائی آپ اسے اگر فارسی میں بتا دیں تو مہربانی ہوگی
 

دوست

محفلین
اردو میں گرامر کی جنس (مذکر مونث) اور تعداد (واحد جمع) کے اعتبار سے فعل اور اسم ضمیر کے آخر میں الف ی یا ے کا اضافہ کیا جاتا ہے. مؤنث کے لیے ی؛ مذکر کے لیے الف اور جمع کے لیے ے.
یہ سادہ ترین وضاحت ہے. مزید کے لیے اہل علم آپ کی مدد کے لیے آتے ہی ہوں گے.
 

الماس رضا

محفلین
لفظ : انسان کی بولی کو کہتے ہیں، کم ہو یا زیادہ،با معنیٰ ہو یا بے معنیٰ،نیز بولنا حقیقی ہو یا حکمی۔ سب کے سب لفظ کہلاتے ہیں۔ بامعنیٰ لفظ کو موضوع اور بے معنیٰ لفظ کو مہمل کہتے ہیں۔ جیسے: قلم ولم۔ اس مثال میں "قلم" معنیٰ دار ، اور "ولم" بے معنیٰ لفظ ہے۔
لفظ موضوع کی دو قسمیں ہیں: مفرد اور مرکب۔
مفرد: ایک لفظ جو ایک معنیٰ بتائے۔ اس کو کلمہ بھی کہتے ہیں۔ کلمہ کی تین قسمیں ہیں:
اسم: وہ کلمہ ہے جو اپنا معنیٰ خود بتائے اور اس کے ساتھ زمانہ نہ پایا جائے۔ جیسے: مرد، عورت،گھر، مکان۔
فعل: وہ کلمہ جو اپنا معنیٰ خود بتائے اور ساتھ میں زمانے پر بھی دلالت کرے۔ جیسے: گیا، کھاتا ہے، مارے گا۔
حرف: وہ لفظ ہے جس کا معنیٰ کسی دوسرے کلمہ کے مالائے بغیر سمجھ میں نہ آ سکے۔ جیسے: سے، کو، تک
مرکب: جو دو یا زیادہ الفاظ سے مل کر بنا ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں : مفید اور غیر مفید۔
مرکب مفید: وہ ہے کہ جب کہنے والا کہہ کر خاموش ہو جائے تو سننے والے کو کوئی خبر یا کسی چیز کی طلب معلوم ہو، مرکب مفید کو مرکب تام، جملہ اور کلام بھی کہتے ہیں۔ جیسے: زید گیا، تو کہہ۔ اس کی دو قسمیں ہیں: جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ۔
جملہ خبریہ: وہ جملہ ہے جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا کہا جا سکے۔ جیسے: خالد جان کار ہے۔ زید نے کتاب پڑھی۔ جس جملہ خبریہ میں "مسند" اور "مسند الیہ" دونوں اسم ہوں اسے جملہ اسمیہ کہتے ہیں، جیسے : خالد جان کار ہے۔ اور جس میں "مسند" فعل ہو اسے جملہ فعلیہ کہا جاتا ہے۔ جیسے: زید نے کتاب پڑھی۔
اسناد: ایک چیز کو دوسرے کی طرف اس طرح منسوب کرنا کہ سننے والے کو کوئی خبر یا کسی چیز کی طلب حاصل ہو۔ جو چیز منسوب کی جائے اسے "مسند" اور جس کی طرف منسوب کی جائے اسے "مسند الیہ" کہتے ہیں۔ جیسے مذکورہ مثالوں میں "خالد" اور "زید"، "مسند الیہ" اور"جان کار " اور "کتاب پڑھی"، "مسند" ہیں۔
جملہ انشائیہ: وہ جملہ ہے جس کے کہنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ سکیں۔ جیسے: تو کہہ، تم جاؤ۔
مرکب غیر مفید: وہ ہے کہ جب کہنے والا کہہ کر خاموش ہو جائے تو سننے والے کو کوئی خبر یا کسی چیز کی طلب معلوم نہ ہو، مرکب غیرمفید کو مرکب ناقص اور مرکب غیرتام بھی کہتے ہیں۔ اس کی متعدد اقسام ہیں جن میں سے ایک "مرکب اضافی" بھی ہے۔
مرکب اضافی: وہ مرکب ہے جو مضاف ، مضاف الیہ اور علامت اضافت پر مشتمل ہو۔ جیسے: زید کا لڑکا۔ اس مثال میں زید مضاف الیہ ، لڑکا مضاف اور "کا" علامت اضافت ہے۔
اردو زبان میں عموما مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں آتا ہے، اور ان کے درمیان علامت اضافت لاتے ہیں۔ علامت اضافت یہ ہیں: کا،کے،کی،را،رے،ری،نا،نے،نی۔

کا، کے،کی: جب مضاف الیہ ، اسم غائب (زید، خالد ، حامد، زینب، فاطمہ،کان پور، دہلی) یا ضمیر غائب (وہ) یا کلمۂ "آپ" ہو تو ان علامات اضافت کا استعمال ہوتا ہے، اور ضمیر واحدغائب کو "اس" اور ضمیر جمع غائب کو "ان" سے بدل دیتے ہیں۔ جیسے: زید کا باپ، اس کی لڑکی، آپ کی ٹوپی، ان کے بچے۔

را، رے، ری: اگر مضاف الیہ ، متکلم(میں، ہم) یا مخاطب کی ضمیر (تو، تم) ہو تو علامت اضافت "را، رے، ری" لاتے ہیں۔

ضمیر واحد متکلم (میں) سے نون غنہ حذف ہو جاتا ہے، اور میم کو کسرہ یعنی زیر دیتے ہیں،نیز "یا"مجہول پڑھی جاتی ہے۔جیسے: "میں" سے " میرا، میرے، میری"۔۔۔ میرا بھائی۔
ضمیر جمع متکلم (ہم) پر "الف" کے اضافے کے بعد "را، رے، ری" لاتے ہیں۔ جیسے: ہمارا گھر
ضمیر مخاطب (تو) کا "واو" یاے مجہول سے تبدیل ہو جاتا ہے، اور "تا" کو کسرہ دیا جاتا ہے۔ جیسے: تیرا بیٹا، تیرے والد، تیری ماں۔ اور ضمیر مخاطب (تم) پر "ھا" کے اضافے کے ساتھ علامت لگاتے ہیں، اس صورت میں "میم"، "ھ" سے مل کر ایک آواز دیتی ہے۔جیسے: تمھارا کارخانہ۔
نا، نے، نی: یہ سب میں مشترک ہے اور حسب ذیل طریقے پر مستعمل ہے: زید اپنے گھر گیا، اس نے اپنی گھڑی گم کر دی، تو اپنے ہاتھ سے لکھ،آپ اپنا ہاتھ آگے کریں،میں نے اپنا ہاتھ دھویا،ہم اپنی کتاب پڑھتے ہیں۔

اتنی گفتگو سمجھ لینے کے بعد مندرجہ ذیل باتیں بھی ملاحظہ فرما لیں:

کا، را، نا: جب مضاف واحد مذکر ہو توحسب موقع ان میں سے ایک علامت اضافت آتا ہے۔

کے، رے، نے: اگر مضاف جمع مذکر، یا واحد معظم (ایسا واحد جسے تعظیم کے پیش نظر صیغۂ جمع سے ذکر کیا جائے) ہو، یا مضاف کے ساتھ علامت فاعل (نے)، یا علامت مفعول (کو) لگی ہوئی ہو، یا اس پر "حرف جار" داخل ہو تو ان تمام صورتوں میں حسب حال مذکورہ تین میں سے ایک علامت اضافت لاتے ہیں۔ جیسے: خالد کے لڑکے اور اس کے والد اپنے گھر(کو) جاتے ہیں۔ مدرسہ میرے مکان سے دور نہیں۔

کی، ری، نی: حسب موقع ان میں سے کسی ایک علامت کو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کہ مضاف مؤنث ہو ،خواہ واحد ہو یا جمع۔ جیسے: میری کتابیں، اس کی لڑکی، آپ کی ٹوپی۔
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہو گیا کہ علامات اضافت میں تبدیلی مضاف کے سبب ہوتی ہے۔​
 
Top