ایک
حوالہ تو یہ ہے۔
ویسے میرے علم میں یہ ہے کہ اگر کوئی پانی میں ڈوب کر مرے تو وہ بھی شھید ہے اور اگر پیٹ کے مرض سے مرے تو وہ بھی۔ حوالہ موجود نہیں۔
اگر کوئی تلاش کرنے میں مدد دے تو مہربانی ہوگی۔
قرآن مجید میں یہ لفظ کئی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک تو اسکا عام مفہوم یہ ہے کہ اگر آدمی کہیں موجود ہو تو اس کے لیئے بھی " شہید" کا لفظ کہا جاتا ہے ۔ اور دوسرا اس مفہوم میں بھی آیا ہے جو کہ ہماری زبان میں رائج ہے یعنی گواہی دینا ، شہادت دینا ۔ قرآن مجید نے بہت سے مقامات پر اس لفظ کو گواہی کے طور پر بھی استعمال کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک قرض کا لین دین کیا جائے تو اس پر لوگوں کو گواہ ٹہرا لیا جائے ۔ اسی طرح جرائم کی گواہی پر بھی یہی لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر زیرِ بحث موضوع کے مطابق قرآن مجید نے ایک اور پہلو سے بھی ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سچائی کی خاطر اپنی جان دے دیتا ہے ، یعنی وہ کسی سچائی کا گواہ بنا ، اس نے اسکی شہادت لوگوں کے سامنے دی ، اور پھر یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ دوسروں نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا اور وہ اس پر پِل پڑے ، اس کی جان کے درپے ہوئے اور پھر اس نے اپنی جان دے کر بھی اس سچائی کی گواہی دیدی ۔ اسی سے درحقیقت اللہ کی راہ میں جان دینے کے لیئے یہ " شہید " کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
اب یہ دیکھنا کہ وہ بات یا اس سچائی کی حقیقت کہاں تک صحیح تھی کہ کوئی شخص اس پر اپنی جان دیدیتا ہے ۔ تو حقیقتاً جب اللہ کا پغیمبر جب دنیا میں موجود ہوتا ہے تو آپ اطمینان کیساتھ کوئی حتمی بات کہہ سکتے ہیں ۔ ہم سب انسان ہیں ۔ اپنے طریقے پر دین کو سمجھتے ہیں ۔ سچائی کو سمجھتے ہیں ۔ ہمیں اس کے بارے میں مخلص ہونا چاہیئے ۔ یعنی اصل چیز یہ ہے کہ میں نے ایک سچائی کو جانا ۔ میں نے سچائی کی حیثیت سے اس کو قبول کیا ۔ میں نے اپنے کسی تعصب یا مفاد کو اس میں دخل نہیں دیا ۔ پوری دیانت داری کیساتھ بات کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ مجھ پر یہ بات واضع ہوگئی اور بغیر کسی تعصب اور جانبداری کے واضع ہوگئی کہ یہ حق ہے ۔ اب اس حق کے لیئے میں جہدوجہد کرتا ہوں ۔ لوگوں کو اس بارے میں بتاتا ہوں اور یہاں تک کہ لوگ اس کے مقابلے میں میری جان لینے درپے ہوجاتے ہیں تو میں اپنی جان بھی دیدیتا ہوں ۔ تو اس میں میرا اپنا فیصلہ ہی اصل اہمیت رکھتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں اس بات کی ضمانت دی ہے کہ " بندے نے اگر جانے بوجھتے غلطی نہیں کی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اسکا اجر عطا فرمائے گا " ۔
مگر واضع رہے کہ دین کے معاملے میں ذمہ داری صرف اتنی نہیں ہے کہ آپ کی نیت ٹھیک ہو ۔ ایک دوسری ذمہ داری بھی یہ ہے کہ آپ نے اپنے علم ، شعور اور ضمیر کو ٹھیک استعمال بھی کیا ہو ۔ لہذا کسی کی اس طرح ہلاکت ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے ۔ اور کوئی اس احاطے میں آتا ہے تو قرآن کے قانون کے مطابق وہ شہید ہے ۔
جہاں تک لفظوں کا معاملہ ہے تو اپنے اندر ایک اصطلاحی مفہوم رکھتے ہیں ۔ اور جب وہ اپنا تہذیبی سفر طے کرتے ہیں تو بعض اوقات وہ بہت اُوپر اٹھ جاتے ہیں ۔ اب تو یہ " شہید " کا لفظ سیاسی اصطلاح میں بھی استعمال ہونے لگا ہے ۔ سکھ اپنے مرنے والوں کا شہید قرار دیتے ہیں ۔ ان کی بعض قبروں پر شہید لکھا ہوتا ہے ۔ وہ بھنڈروالہ کو شہید کہتے ہیں ۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اب یہ لفظ ایک عمومی لفظ بن چکا ہے ۔ یعنی اب اگر کوئی شخص کسی اچھے مقصد کے لیئے جان دیتا ہے تو اس لفظ کو استعمال کرلیا جاتا ہے ۔ لیکن ایک دینی اصطلاح کے طور پر ہم مسلمانوںکو ضرور محتاط رہنا چاہیئے ۔ معاملہ اللہ کے سپرد کردیں او ر کرائن کی بنیاد پر اس لفظ کا استعمال کریں ۔