عباد اللہ
محفلین
اس تفصیلی نوٹ کے لئے آپ کا جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے بہت کچھ رہنمائی میسر آئی ہم کوشش کرتے ہیں اپنی غزل کو واضح کرنے کیعباداللہ بھائی ، اس مصرع کی چھتری تلے پناہ تو آپ کو نہیں ملے گی ۔ وہاں پہلے ہی بہت زیادہ ہجوم ہے ۔ آپ کو تو ایک ٹانگ رکھنے کی جگہ بھی بمشکل مل پائے گی ۔
خیر یہ تو ایک مذاق تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ میں اچھی شاعری کی بہت صلاحیت ہے ۔آپ کو زبان پر اچھا عبور ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ شعر میں بہت آگے تک جائیں گے ۔ اس غزل میں معنی تو صرف ایک ہی شعر کے سمجھ نہیں آرہے باقی اشعار میں تو ایسی کوئی بات نہیں ۔ چھوٹی موٹی باتیں تھیں جو میں نے ضروری جانتے ہوئے گوش گزار کردیں ۔ انہیں مثبت انداز میں لیجئے۔ دیکھئے بلا استثناء ہر شعر کے پیچھے کوئی معنی یا مطلب ضرور ہوتا ہے۔ آخرکلام ( نثر یا شعر) کا مقصدہی اپنےکسی خیال کو دوسرے تک منتقل کرنا ہے ۔بغیر معنی کے تو کلام کلام ہی نہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان مطالب کا ابلاغ قاری تک ہورہا ہے یا نہیں ۔ اگرابلاغ نہیں ہورہا تو پھر وہ شعری کاوش ناکام ہے۔ شعر گوئی کا تمامتر تخلیقی عمل اسی ابلاغ کے مسئلے سے متعلق ہے ۔ یعنی خیال کو اس طرح سے جامہء الفاظ دیاجائے کہ نہ صرف وہ پابندِعروض ہو بلکہ صوتی اور جمالیاتی تقاضے (جنہیں عموماً شعریت بھی کہا جاتا ہے ) پورے کرتے ہوئے خیال کو ممکنہ حد تک صحیح سلامت قاری تک پہنچادے ۔ اب اس تخلیقی عمل کے دوران بعض اوقات شاعر کی ردائے ہنر چھوٹی پڑنے لگتی ہے ۔ یعنی کبھی تو عروض کا سر ڈھانپنے کی کوشش میں معنی کے پاؤں ننگے رہ جاتے ہیں ۔ اور کبھی معنی کے پاؤں ڈھانپنے کے چکر میں عروض ننگے سر ہوجاتی ہے۔ اور کبھی کھینچ تان کر دونوں کو ڈھک بھی دیاجائے تو شعریت بے ستر ہوجاتی ہیں ۔ اب یہ تو طے ہے کہ معنی کلام کی اولین شرط ہے چنانچہ اسے تو کسی صورت قربان نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن بقیہ دو پہلوؤں میں لچک موجود ہے ۔ عروض کی پابندی لازم تو ہے لیکن اس میں اتنی آزادی ضرور ہے کہ شاعر اس بحر کا انتخاب کرے جو اس کی طبع کو راس آتی ہو ۔ چھوٹی بحر میں پابندیاں زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس میں استعمال کئے جانے والے ممکنہ الفاظ کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے ۔ بڑی بحر میں بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے ۔ مناسب ردیف کا استعمال ( یا عدم استعمال) اورکشادہ قوافی کا انتخاب اظہارِ خیال کو نسبتاً آسان بنادیتے ہیں ۔ مشکل زمینوں مین شعر کہنا مشق کے لئے تو ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن سنجیدہ شاعری کے لئے بہت مشکلات پیدا کرتا ہے ۔ اب لے دے کےشعر کے صوتی اور جمالیاتی تقاضے یعنی شعریت کا پہلو رہ جاتا ہے اور اکثر اسی پر آکر تان ٹوٹتی ہے ۔ اسی میں لچک اور رد وبدل کی سب سے زیادہ گنجائش ہے ۔ اکثر اوقات شاعر کو ٹھیک ٹھیک ابلاغ کے لئے زمین کی پابندی کی وجہ سے کچھ ایسا پیرایہ اور ایسی لفظیات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے کہ اس میں شعریت کا پہلو کسی حد تک قربان ہو جاتا ہے۔ شعر کی کامیابی کا اصل دارومدار اسی بات پر ہے کہ شعریت کے اس پہلو کو کس حد تک برقرار رکھا گیا ہے ۔ کامیاب اور مؤثر شعر وہی ہے جس میں ابلاغ ہو اور شعریت کے تمام لوازمات کے ساتھ ہو ۔ اعلیٰ شعر وہ ہے جس میں کامیاب ابلاغ کے ساتھ ساتھ خیال بھی اعلیٰ ہو ۔
بھائی یہ مسئلہ بہت عام ہے ۔ حل اس کا یہ ہے کہ اشعار لکھنے کے بعد انہیں اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جائے اور چند ہفتوں کے بعد جب وہ ذہن سے نکل جائین تب انہیں ایک قاری کی غیرجانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے یا بقول شخصے دشمن کی نظر سے دیکھا جائے ۔ آپ کو خود اپنی غلطیاں نظر آنا شروع ہوجائیں گی ۔ان میں ردوبدل کی جائے اور پھر اٹھا کر رکھ دیا جائے ۔ کچھ روز بعد پھر نظرِ ثانی کی جائے ۔ یقین کیجے شعر کو سنوارنے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔ جب آپ خود اپنے سب سے بڑے ناقد بن جائیں تو سمجھ لیجئے کہ اب آپ اصلاح سے آزاد ہوگئے ۔ برسوں پہلے ایک قطعہ کہا تھا اس وقت اسے دہراؤں تو برمحل ہوگا ۔انہیں یہ ضد ہے کہ اظہار ضروری ہے ابھی
مجھے یہ ڈر ہے کہ ہربات ادھوری ہے ابھی
لاشعوری ہے خیالات کی آمد ، مانا
جامہء حرف کا بُننا تو شعوری ہے ابھی
بھئی یہ میرے لئے ایک نئی خبر ہے ۔ براہِ کرم ایک دو مثالیں ایسی دکھائیے کہ جہاں کسی نے جِلَو کو جلُو یعنی بروزن وضو باندھا ہو ۔ میں نے تو اسے ہمیشہ جِلَو ہی دیکھا ہے ۔ اسی سے لفظ جلوت نکلا ہے ۔ اگر غلط العام سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اس کا تلفظ لام پر پیش کے ساتھ کرتے ہیں (اگرچہ میں نے ایسا بھی کبھی نہیں سنا) تو یہ استدلال پھر ٹھیک نہیں ۔ دیکھئے وزن کو مجھ سمیت بہت سارے لوگ عام گفتگو مین وَزَن یعنی بدن کے طرز پر بول جاتے ہیں ۔ لیکن جب اس لفظ کو شعر میں لایا جائے گا تو زائے ساکن کے ساتھ ہی لایا جائے گا ۔
بیشک آہوئے جاں اثرِ نعرہ ہو میں گم ہے جیسا کہ دوسرے مصرع میں مذکور ہے۔ آہوئے جاں کا استعارہ آپ نے اپنی روح یا دل کے لئے استعمال کیا ہےیہ تو بات سمجھ میں آرہی ہے ۔ لیکن میرا اشارہ تو آہوئے جاں کی زخمہ زنی کی طرف تھا ۔ استعارے اور تشبیہ میں بھی معقولیت ضروری ہے ۔ اگر میں کہوں کہ مرا طائرِ دل اداس ہے یا گوشہ نشیں ہے تو بات شعریت کے اعتبار سے ٹھیک ہے اور میری کیفیت کا ابلاغ کرتی ہے لیکن اگر یہ کہوں کہ مر ا طائرِ دل کھانا نہیں کھارہا تو قاری کے ذہن میں ایک مضحکہ خیز تصور پیدا ہوگا اور میری کیفیت کا ابلاغ ٹھیک ٹھیک نہین ہوپائے گا ۔
عباداللہ بھائی ۔ آج کچھ وقت میسر تھا تو کچھ باتیں آپ کی غزل کے حوالے سے لکھ دی ہیں ۔ براہِ راست گفتگو تو اگرچہ آپ ہی سے ہے لیکن بالواسطہ ان تمام لوگوں سے ہے جو اصلاحِ سخن کے زمرے سے استفادہ کرتے ہیں ۔ انہین مثبت انداز مین لیجئے گا ۔
اصلاح سخن پر کلام پوسٹ کرنے کے بعد کسی بات پر کبیدہ خاطر ہونا تو یوں بھی منطقی بات نہیں جلو سے متعلق ہمارا مغالطہ برقرار ہے ہم سند کی تلاش میں ہیں۔ غزل ہی دوبارہ کہنے کی کشش کرتے ہیں ایک بار پھر بہت شکریہ سر