یہ تنگ و تار جھونپڑیاں گھاس پھوس کی
اب تک جنھیں ہوا نہ تمدن کی چھو سکی
ان جھونپڑوں سے دور اور اس پار کھیت کے
یہ جھاڑیوں کے جھنڈ یہ انبار ریت کے
یہ سادگی کے رنگ میں ڈوبا ہوا جہاں
ہنگامۂ جہاں ہے سکوں آشنا جہاں
یہ دوپہر کو کیکروں کی چھاؤں کے تلے
گرمی سے ہانپتی ہوئی بھینسوں کے سلسلے
ریوڑ یہ بھیڑ بکریوں کے اونگھتے ہوئے
جھک کر ہر ایک چیز کی بو سونگھتے ہوئے
یہ آندھیوں کے خوف سے سہمی ہوئی فضا
جنگل کی جھاڑیوں سے سنکتی ہوئی ہوا
یہ شام کے مناظرِ رنگیں کی خامشی
اور اس میں گونجتی ہوئی جھینگر کی راگنی
بچے غبارِ راہگزر پھانکتے ہوئے
میدان میں مویشیوں کو ہانکتے ہوئے
برفاب کے دفینے اگلتا ہوا کنواں
یہ گھنگھروؤں کی تال پہ چلتا ہوا کنواں
یہ کھیت، یہ درخت، یہ شاداب گرد و پیش
سیلابِ رنگ و بو سے یہ سیراب گرد و پیش
مستِ شباب کھیتیوں کی گلفشانیاں
دوشیزۂ بہار کی اٹھتی جوانیاں
یہ نزہتِ مظاہرِ قدرت کی جلوہ گہ
ہاں ہاں یہ حسنِ شاہدِ فطرت کی جلوہ گہ
دنیا میں جس کو کہتے ہیں گاؤں یہی تو ہے
طوبیٰ کی شاخِ سبز کی چھاؤں یہی تو ہے
مجید امجد