زرداری پر دو جوتے پھینکے گئے ہیں

شمشاد

لائبریرین
اور آج جیو کو یہ خبر نشر کرنے اور اخبار میں چھاپنے کی بڑی ٹھیک سزا ملی ہے۔ بہت سے علاقوں میں جیو کی نشریات بند کر دی گئیں اور ملک کے بیشتر علاقوں میں جنگ اور دی نیوز اخباروں کو ہاکروں سے چھین کر آگ لگا دی گئی، اخبار لے جانے والی گاڑیوں کو بھی آگ لگائی گئی، ہاکروں جو یہ اخبار اٹھانے پر مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

اب تو یہی غنڈہ گردی رہ گئی ہے۔
 
دراصل لوگ اس بات پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ جوتا اپنی منزل تک پہنچا کیوں نہیں۔ ۔۔اسی لئے اب کھسیانی بلی کھمبا نوچ رہی ہے۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
انہیں غالباً پہلے ہی اس چھترول کی امید تھی، اسی لیے حاضرین اور صدر کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ رکھا گیا تھا۔
 

رانا

محفلین
میری نظر میں یہ ایک اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے۔ اسلامی تعلیم تو یہ ہے کہ کسی دوسرے ملک کا سربراہ آئے تو اسکی بھی عام معمول سے زیادہ عزت کی جائے اور یہاں یہ ہورہا ہے کہ اپنے ہی صدر کو جوتے مار کر اپنے آپ کو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والا مجاہد سمجھ لیتے ہیں۔ اسطرح کی حرکتیں جس ملک کے افراد سے سرزد ہوں گی تو وہاں کوئی دوسرا سربراہ مملکت آنے کی ہمت کیوں کرے گا۔ا پنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے مہذب طریق بھی ہیں۔ کوئی کہے گا کہ یہاں مہذب طریق سے کوئی سنتا نہیں ہے لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جسطرح کے قوم کے کرتوت ہوں ویسا ہی لیڈر قوم پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اب چاہے کوئی زرداری کو خدا کا عذاب سمجھ لے جو ہم پر مسلط کیا گیا ہے یا ایسا آئینہ سمجھ لے جس میں قوم کا چہرہ نظر آرہا ہے۔ جس طرح دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے اسی طرح قوم میں سے وہی شخص لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے جو قوم کی مجموعی اخلاقی حالت کی بکمال نمائندگی کرتا ہے۔ اگر ہم لوگ اپنے اعمال سدھار لیں اور سچے دل سے خدا سے توبہ کرلیں اور ملک کی حالت سدھارنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے خدا سے دعا مانگیں تو کیا ممکن ہے کہ خدا ہماری دعاؤں کو ردی کی طرح پھینک دے؟
 

سویدا

محفلین
یہ ایک غیر اسلامی ، غیراخلاقی بلکہ غیر انسانی حرکت ہے
چاہے بش کے خلاف ہو یا زرداری یا کسی کے بھی خلاف
 

طالوت

محفلین
میرے خیال میں آپ احباب اس “غیر اخلاقی و غیر مہذب“ حرکت کی وجہ جانتے ہوں گے ۔ یہ تحریک ہمارے ہر دلعزیز منتظر الزیدی کی شروع کر دہ ہے اور عربوں کے ہاں کسی کی طرف جوتا پھینکنا مطلب انتہائی نفرت اور بے زاری کا اظہار ہے۔ اورگالم گلوچ کی بجائے یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے ۔ کیونکہ اس نفرت اور بیزاری کے اظہار کے لئے ضروری نہیں کہ جوتا ٹھیک نشانے پر لگے ;) دکھا دینا یا محض پھینک دینا بھی کافی ہو گا۔
رہی بات جیسے عوام ویسے حکمران تو میں اس فارمولے سے اتفاق نہیں کرتا ، جیسے حکمران ویسے عوام ہی درست فارمولا ہے ۔ یہ پتا نہیں کس نے اس قدر عام کر دیا ہے کہ ہر خاص و عام سے یہی سننے کو ملتا ہے ۔ غالبا سیدنا عمر بن خطاب نے فرمایا تھا کہ حاکم کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات درست رکھے کیونکہ وہ سلطنت میں قانون کے عمل درآمد کا ذمہ دار ہوتا ہے اگر وہ خود لا پرواہ یا پرواہ کرنے والاہو تو رعایا بھی اسی کی تقلید کرے گی ۔ اور عقلا اور حقیقتا بھی یہ بات درست ہی ہے ۔ آج اگر حکمران کرپشن چھوڑ دیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے لگیں تو عوام میں کس کی جرات ہے کہ وہ معمولی جرم بھی بے خوفی سے کرے ۔
بہرحال میں تو ان صاحب کا خیر مقدم کرتا ہوں اگر انھوں نے وہ جوتے بحیثیت پاکستانی کے پھینکے ۔
وسلام
 

رانا

محفلین
رہی بات جیسے عوام ویسے حکمران تو میں اس فارمولے سے اتفاق نہیں کرتا ، جیسے حکمران ویسے عوام ہی درست فارمولا ہے ۔ یہ پتا نہیں کس نے اس قدر عام کر دیا ہے کہ ہر خاص و عام سے یہی سننے کو ملتا ہے ۔ غالبا سیدنا عمر بن خطاب نے فرمایا تھا کہ حاکم کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات درست رکھے کیونکہ وہ سلطنت میں قانون کے عمل درآمد کا ذمہ دار ہوتا ہے اگر وہ خود لا پرواہ یا پرواہ کرنے والاہو تو رعایا بھی اسی کی تقلید کرے گی ۔ اور عقلا اور حقیقتا بھی یہ بات درست ہی ہے ۔ آج اگر حکمران کرپشن چھوڑ دیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے لگیں تو عوام میں کس کی جرات ہے کہ وہ معمولی جرم بھی بے خوفی سے کرے ۔
بہرحال میں تو ان صاحب کا خیر مقدم کرتا ہوں اگر انھوں نے وہ جوتے بحیثیت پاکستانی کے پھینکے ۔
وسلام

طالوت بھائی آپ کی بات بالکل درست ہے کہ عوام انہی اعمال پر قدم مارتی ہے جن پرحکمراں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ فارمولا میری نظر میں وہاں اپلائی ہوتا ہے جہاں حکمرانوں کو منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ یا تو بادشاہت والا سسٹم ہوتا ہےیا پھرانہیں تعینات کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرکا عمومی طریق یہ تھا کہ مختلف علاقوں کے گورنرخود تعینات فرمایا کرتے تھے۔ لیکن میں بات کررہا ہوں جمہوری طرزحکومت کی کہ جس میں عوام آزاد ہوتے ہیں اپنی مرضی کے حکمراں لانے کے لئے۔ ایسی صورت میں کوئی غلط بندہ حکمراں بن ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ جیسے ہی اس کی اصلیت کھلے گی پارلیمنٹ اس کو معزول کرسکتی ہے لیکن اگر پارلیمنٹ میں بھی جتنے بیٹھے ہوں وہ بھی عوام کے منتخب کردہ ہوں اور ویسے ہی کرپٹ ہوں جیسے کہ وہ حکمراں تو پھرآپ کیا کہیں گے۔ کیا ممکن ہے کہ عوام کی اکثریت تو دیانتدار ہو لیکن نمائیندے جو کسی ایک جگہ سے نہیں دو جگہ سے نہیں بلکہ پورے ملک کے مختلف علاقوں سے مختلف رہن سہن رکھنے والے مختلف سوچ رکھنے والے عوام کی مرضی سے چنے گئے ہوں لیکن سب کے سب کرپٹ نکلیں؟؟ عقل اس بات کو مان ہی نہیں سکتی کہ سولہ کروڑ لوگوں نے مختلف علاقوں سے مختلف لوگوں کو منتخب کیا لیکن پوری کی پوری دیانتدار عوام کی مت ماری گئی کہ سب ہی کرپٹ منتخب کرلیے؟؟ ایک جگہ کے عوام غلطی کرسکتے ہیں دو جگہ کے کریں تو بھی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن سب کے سب؟؟؟
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن ہمارے ہاں انتخاب ہوتا کہاں ہے، یہ تو selection ہوتی ہے۔

ایماندار بندے کو تو الیکشن ہی نہیں لڑنے دیتے۔
 

طالوت

محفلین
طالوت بھائی آپ کی بات بالکل درست ہے کہ عوام انہی اعمال پر قدم مارتی ہے جن پرحکمراں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ فارمولا میری نظر میں وہاں اپلائی ہوتا ہے جہاں حکمرانوں کو منتخب نہیں کیا جاتا بلکہ یا تو بادشاہت والا سسٹم ہوتا ہےیا پھرانہیں تعینات کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرکا عمومی طریق یہ تھا کہ مختلف علاقوں کے گورنرخود تعینات فرمایا کرتے تھے۔ لیکن میں بات کررہا ہوں جمہوری طرزحکومت کی کہ جس میں عوام آزاد ہوتے ہیں اپنی مرضی کے حکمراں لانے کے لئے۔ ایسی صورت میں کوئی غلط بندہ حکمراں بن ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ جیسے ہی اس کی اصلیت کھلے گی پارلیمنٹ اس کو معزول کرسکتی ہے لیکن اگر پارلیمنٹ میں بھی جتنے بیٹھے ہوں وہ بھی عوام کے منتخب کردہ ہوں اور ویسے ہی کرپٹ ہوں جیسے کہ وہ حکمراں تو پھرآپ کیا کہیں گے۔ کیا ممکن ہے کہ عوام کی اکثریت تو دیانتدار ہو لیکن نمائیندے جو کسی ایک جگہ سے نہیں دو جگہ سے نہیں بلکہ پورے ملک کے مختلف علاقوں سے مختلف رہن سہن رکھنے والے مختلف سوچ رکھنے والے عوام کی مرضی سے چنے گئے ہوں لیکن سب کے سب کرپٹ نکلیں؟؟ عقل اس بات کو مان ہی نہیں سکتی کہ سولہ کروڑ لوگوں نے مختلف علاقوں سے مختلف لوگوں کو منتخب کیا لیکن پوری کی پوری دیانتدار عوام کی مت ماری گئی کہ سب ہی کرپٹ منتخب کرلیے؟؟ ایک جگہ کے عوام غلطی کرسکتے ہیں دو جگہ کے کریں تو بھی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن سب کے سب؟؟؟

آپ کی اس دلیل سے میں کسی حد تک متفق ہوں ۔ لیکن پاکستان میں نظام جمہوریت ، انتخاب کا طریقہ ،انتخاب کا عمل ، انتخاب کرنے والے افراد کے مقابلے میں خاصا مضبوط ہے ۔
وسلام
 

مغزل

محفلین
رانا صاحب ، آپ کے جذبات قابلِ قدر ہیں ۔ مگر حقیقت سے دور۔پھر بھی خوش رہیں۔

مجھے میری بھتیجی نے ایس ایم ایس کیا ۔ ملاحظہ کیجے

اک کڑ بک کڑ بمبے بو
زرداری کو لگے جوتے دو
 

جٹ صاحب

محفلین
مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا کہ

زرداری کو جوتا نہیں لگا تو کیا ڈیفیکٹ ہے
آخر جوتے کی بھی تو کوئی سیلف ریسپیکٹ ہے
 

عثمان

محفلین
رانا کی بات ٹھیک ہے۔
جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ہوتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہماری تان حکمرانوں سے شروع ہو کر حکمرانوں ہی پر ختم ہوجاتی ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ پاکستانی دنیا کی چند بدیانت قوموں میں سے ایک ہے۔ حکمرانی کے لئے لوگ اسی میں سے نکلیں گے۔ آسمان سے فرشتے تو نہیں ٹپکنے لگے۔
اگر کسی کو میری بات گراں گزرتی ہے تو اسے چاہیے کہ ایک جوتا ان چون ہزار ووٹروں کو بھی مار کے آئے جنہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایک فراڈیے جمشید دستی کو دوسری دفعہ اسمبلی میں پہنچایا۔
 
Top