میرے خیال میں آپ احباب اس “غیر اخلاقی و غیر مہذب“ حرکت کی وجہ جانتے ہوں گے ۔ یہ تحریک ہمارے ہر دلعزیز منتظر الزیدی کی شروع کر دہ ہے اور عربوں کے ہاں کسی کی طرف جوتا پھینکنا مطلب انتہائی نفرت اور بے زاری کا اظہار ہے۔ اورگالم گلوچ کی بجائے یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے ۔ کیونکہ اس نفرت اور بیزاری کے اظہار کے لئے ضروری نہیں کہ جوتا ٹھیک نشانے پر لگے
دکھا دینا یا محض پھینک دینا بھی کافی ہو گا۔
رہی بات جیسے عوام ویسے حکمران تو میں اس فارمولے سے اتفاق نہیں کرتا ، جیسے حکمران ویسے عوام ہی درست فارمولا ہے ۔ یہ پتا نہیں کس نے اس قدر عام کر دیا ہے کہ ہر خاص و عام سے یہی سننے کو ملتا ہے ۔ غالبا سیدنا عمر بن خطاب نے فرمایا تھا کہ حاکم کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات درست رکھے کیونکہ وہ سلطنت میں قانون کے عمل درآمد کا ذمہ دار ہوتا ہے اگر وہ خود لا پرواہ یا پرواہ کرنے والاہو تو رعایا بھی اسی کی تقلید کرے گی ۔ اور عقلا اور حقیقتا بھی یہ بات درست ہی ہے ۔ آج اگر حکمران کرپشن چھوڑ دیں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھانے لگیں تو عوام میں کس کی جرات ہے کہ وہ معمولی جرم بھی بے خوفی سے کرے ۔
بہرحال میں تو ان صاحب کا خیر مقدم کرتا ہوں اگر انھوں نے وہ جوتے بحیثیت پاکستانی کے پھینکے ۔
وسلام