زرداری کے چند مثبت اقدامات

مہوش علی

لائبریرین
اختلافات اپنی جگہ، مگر زرداری نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں اور اچھے کام جو بھی کرے اسکی تعریف میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔

headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
20 ستمبر ہمارے لئے اچھا دن تھا، جو برا ہو گیا۔ ہمارے ملک کو برسوں کے بعد، ایک منتخب صدر پارلیمنٹ کے ذریعے نصیب ہوا ہے۔ جس کے خلاف ایوان کے اندر نہ کوئی نعرے بازی ہوئی اور نہ ڈیسک بجائے گئے۔ منتخب صدر تو 90ئکے عشرے میں بھی آئے تھے لیکن اسحق خان اور فاروق لغاری دونوں کو جس ماحول میں خطاب کرنا پڑا، اسے ہرگز مثالی جمہوری مظاہرہ نہیں کہا جا سکتا۔ آصف زرداری کے خطاب کے دوران مدت کے بعد ایسا منظر دیکھنے میں آیا جس کو دیکھ کر فخر سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم جمہوری روایات سے محروم نہیں ہوئے۔ آمریت کے اثرات کے تحت جو سیاسی ناپختگی اور عدم روا داری ہمارے مزاج میں آ گئی ہے۔ ہم اس سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ صدر زرداری کے خطاب کے دوران ہمارے منتخب نمائندے یہی کوشش کرتے نظر آئے۔ جس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ صدر کے خطاب میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کے اندازے لگائے جا رہے تھے۔ وہ ایک آئینی صدر کے اختیارات کے دائرے کے اندر رہے۔ کوئی حکم نہیں سنایا۔ کوئی ایجنڈا نہیں دیا۔ جو تقریر انہیں حکومت کی طرف سے دی گئی تھی۔ وہی تقریر انہوں نے ایوان کے سامنے پڑھی۔ انہوں نے اپنی طرف سے جو کچھ کہنا چاہا۔ وہ ایک مشورے کی صورت میں تھا۔ جس سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے پارلیمینٹ کی بالا دستی کا جو وعدہ کیا تھا۔ اس پر خود بھی کاربند رہے۔ آصف زرداری میں دوسروں کو حیران کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ جو لوگ ان کے صدر بننے پر، ماضی کو یاد کرکے پریشان ہو رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ پتہ نہیں وہ پاکستان کے ساتھ کیا کریں گے؟ ان کے سارے تصورات دھرے رہ گئے۔ صدر بنتے ہی انہوں نے خیر مقدمی اشتہارات پر پابندی لگا دی۔ سیٹلائٹ منصوبے پر عملدرآمد، ایٹمی توانائی کے پلانٹس اور کمیونی کیشن سسٹم کی خریداری کے لئے، ان کے مشورے پر حکومت نے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں سیکرٹریز کے علاوہ ڈائریکٹر سٹریٹجک پلاننگ بھی شامل ہیں۔ بڑے سودوں میں فوج کی بالواسطہ شمولیت، نئے صدر کے اس عزم کا ثبوت ہے کہ وہ شفاف گورنس کا پکا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر منصوبوں پر عملدرآمد اور خریداریوں کے لئے، اسی طرح کے انتظامات ہوتے رہے تو چند ہی روز میں زرداری کے مخالفین ”مسٹر ٹین پرسنٹ“ کی اس چھڑی سے محروم ہو جائیں گے۔ جو وہ صدر زرداری پر استعمال کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ رہی سہی کسر قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا چیئرمین بنا کر نکال دی گئی۔ جن لوگوں کو موجودہ حکومت سے کرپشن کی امیدیں تھیں۔ ایسے انتظامات کی روشنی میں، جلد ہی انہیں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ پاکستان کے آئینی اور سلامتی کے امور کے حوالے سے صدر نے حکومتی پالیسیوں کے بنیادی خدوخال بھی ایوان کے سامنے رکھے۔ یہ بھی عوام کی خواہشات کے عین مطابق تھے۔ اسی لئے میں نے لکھا کہ 20ستمبر ہمارے لئے اچھا دن تھا مگر افسوس، ماضی کے سائے اسلام آباد کے قلب میں اچانک ایک آتش فشاں سے اٹھنے والے دھوئیں کی طرح بھڑک اٹھے۔ عمارتیں اور درو دیوار لرز اٹھے اور سینکڑوں بے گناہ انسان شعلوں کی لپیٹ میں آ گئے۔
دہشت گردی کے حوالے سے یہ برصغیر میں سب سے بڑی کارروائی اور ہمارے لئے ایک عظیم سانحہ ہے۔بے شک یہ سکیورٹی کی خامی تھی لیکن یہ سکیورٹی ہی تھی جس کی وجہ سے اسلام آباد ایک بڑی تباہی سے بچ گیا۔ جس ٹرک سے یہ دھماکہ کیا گیا وہ چھ سو کے جی کے دھماکہ خیز مواد سے بھرا ہوا تھا۔ جس میں آر ۔ڈی۔ ایف۔ اور ٹی ۔این۔ ٹی ۔کے بارود کے ساتھ المونیم پاؤڈر بھرا گیا تھا اور یہ مواد اتنا خوفناک اور دھماکہ خیز تھا کہ اگر منصوبہ کے مطابق طے کئے گئے مقام پر پھٹتا تو ڈیزی کٹر سے زیادہ تباہی پھیلا سکتا تھا۔ وزارت داخلہ نے ابتدائی اندازوں سے منصوبے کے جو خدو خال دیکھے ہیں، ان کے مطابق ٹرک کو تیز رفتاری سے بیرئیر پار کرکے عمارت اور پارکنگ کے درمیان شیشے کی دیوار توڑ کر دھماکہ چھت کے نیچے کرنا تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو میریٹ ہوٹل کی پوری کی پوری عمارت ایک بم کی طرح پھٹتی اور دو میل تک گرد و نواح کی عمارتوں کا بڑا حصہ کھنڈرات میں بدل جاتا اور انسانی جانوں کے نقصان کا تو اندازہ ہی مشکل ہے۔ جب یہ ٹرک گیٹ پر آیاتو گارڈز نے ڈرائیور سے پوچھ گچھ شروع کر دی اس دوران ڈرائیور نے ٹرک چلا کر بیریئر توڑنے کی کوشش کی، چونکہ گارڈز نے بیریئر اوپر نہیں اٹھایا تھا اور ڈرائیور نے جلدی میں وہیں دھماکہ کر ڈالا اس لئے جو تباہی رونما ہوئی وہ ہوٹل کی عمارت سے کئی گز دور پھٹنے والے بارود کی وجہ سے ہو گئی۔ اگر یہی بارود چھت کے نیچے جا کر پھٹتا تو جیسا کہ میں نے عرض کیا ہوٹل کی پوری عمارت بم بن جاتی اس کے اندر لگا ہوا سریا دھاتی میٹریل جیسے کھڑکیاں وغیرہ اور شیشے کلسٹر بم کے ٹکڑے بن کر دو میل تک گرتے اور ایسی ہولناک تباہی پھیلتی جس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر گارڈز ٹرک ڈرائیور سے بحث کی بجائے اسے فوراً ہی گولی مار دیتے تو شائد اسے دھماکے کی مہلت نہ ملتی۔ لیکن پھر بھی انہوں نے بیرئیر کو بند رکھ کر اصل منصوبہ ناکام بناتے ہوئے اپنی جان دے دی۔
دھماکے سے پہلے، جس وقت گارڈز ڈرائیور سے پوچھ گچھ کر رہے تھے انٹیگرل میڈیکل سروس کے ایک ڈاکٹر ٹرک کے پیچھے آئے اور جلدی اندر جانے کے لئے ہارن دیئے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ٹرک ڈرائیور اور گارڈز کے درمیان بحث چل رہی ہے تو ایک انجانے خوف سے وہ گاڑی پیچھے ہٹا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور یہی ناگہانی احتیاط ان کی زندگی بچا گئی۔ جب یہ سانحہ رونما ہوا اس وقت وزیراعظم ہاؤس کے لان میں افطار کی دعوت جاری تھی۔ جس سے گراؤنڈ، عمارت اور فرش ہل گئے۔ مشیر داخلہ رحمن ملک نے بلند آواز میں فوراً ہی سکیورٹی گارڈز کو حکم دیا ”ریسکیو دی پریذیڈنٹ۔ ریسکیو دی پرائم منسٹر“ اور خود بھی گارڈ بن کر انہیں پناہ گاہ کی طرف لے جانے کے لئے آگے بڑھے لیکن صدر اور وزیراعظم دونوں ہی اپنی کرسیوں پر بیٹھے رہے دونوں نے اندر جانے سے انکار کیا اور رحمن ملک سے کہا کہ وہ اس دھماکے کی تفصیل معلوم کریں۔ دعوت میں شریک وزراء اور جنرل حضرات، صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ رحمن ملک نے اس میز کے گرد سکیورٹی گارڈز کی دیوار کھڑی کر دی۔ جو سکیورٹی کا تقاضا تھا۔ اس میز سے کوئی اٹھ کر باہر نہیں گیا۔ باہر جانے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ یہ دعوت لان میں ہو رہی تھی۔ کوئی زمین پر نہیں لیٹا اور نہ ہی خوف سے کوئی آواز نکلی۔ کچھ لوگوں کے باہر جانے اور کچھ لوگوں کے ڈرنے کی جو خبریں بعض جگہ شائع ہوئیں۔ ان کے بارے میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ اس طرح کے مواقع پر ایسی رپورٹنگ نہ ہی کی جائے تو اچھا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی کہ ماسوائے چند قومی لیڈروں کے، کسی تجزیہ نگار یا رپورٹر نے دہشت گردوں کی غیر مشروط مذمت نہیں کی۔ بیشتر جگہ یہ انداز اختیار کیا گیا جیسے دہشت گردوں کے پاس اس مذموم کارروائی کا کوئی جواز بھی ہوتا ہے۔ دہشت گردی کو ذاتی تعصبات اور تصورات کی روشنی میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ جس کارروائی سے بے گناہ شہری بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارے جائیں اس کا کوئی سیاسی، مذہبی یا انسانی جواز نہیں ہوتا۔
آخر میں موازنہ ہو جائے۔ گزشتہ دنوں دہلی میں بم دھماکے ہوئے تو بھارتی وزیرداخلہ پاٹل پر اس حوالے سے بہت تنقید ہوئی کہ وہ موقع واردات پر نہیں پہنچے۔ دھماکوں کے بعد وہ تین مرتبہ ٹی وی کیمروں کے سامنے آئے اور تینوں مرتبہ ان کا لباس بدلہ ہوا تھا ناقدین نے کہا کہ شہری دہشت گردی کا نشانہ بن رہے تھے اور وزیر داخلہ لباس بدلنے میں مصروف تھے۔ ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی ہوا اور سروے بھی کئے گئے۔ سوال یہ تھا کہ کیا انہیں وزارت سے نکال نہیں دینا چاہئے؟ ہر سروے میں اکثریت ان کے خلاف رہی۔ دوسری طرف رحمن ملک صدارتی میز کے گرد حفاظتی انسانی دیوار کھڑی کرکے فوراً میریٹ ہوٹل گئے وہاں سکیورٹی کے انتظامات کے لئے ہدایات دے کر پولی کلینک پہنچے۔ پمز گئے۔ واپس صدر اور وزیراعظم کو ابتدائی رپورٹ پیش کی اور دوبارہ میریٹ آ گئے۔ ہر جگہ وہ میڈیا کے سامنے گئے۔ سوالوں کے جواب دیئے متاثرین سے ملے اور اس پوری نقل و حرکت کے دوران وہ شلوار قمیض میں ملبوس کھلے عام پھرتے رہے۔ حالانکہ ان کا یہ طریقہ سکیورٹی کے اصولوں کے خلاف تھا۔ صدر اور وزیراعظم نے بھی محفوظ مقام پر جانے سے انکار کرکے سکیورٹی اصولوں کی خلاف ورزی کی اور رحمن ملک نے بھی، ان کا اصرار مان کر اچھا نہیں کیا گیا کیونکہ بلیو بک کے مطابق ایسی صورت حال میں صدر اور وزیراعظم منظر سے ہٹنے پر تیار نہ ہوں تو حکم یہ ہے کہ انہیں زبردستی اٹھا کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ہماری تمام اہم شخصیتوں کو ہنگامی طور سے سکیورٹی کے تقاضوں کی تفصیل از سر نو جاننا چاہئے اور ان ہدایات پر عمل کرنا چاہئے جو تحفظ کے لئے ضروری قرار دی گئیں ہیں۔ یاد رکھیں دہشت گرد ہمیشہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اہم شخصیات کو نشانہ بنا کر عوام کو زیادہ خوف زدہ کریں۔

 

امکانات

محفلین
نزیر ناجی پاکستان کے بڑے صحافی ہیں‌ کالم نگاری کی ایک مسلمہ روایت ہے کہ صحافی غیر جانبار رہ کر تحقیق کر تاہہے اور پھر رپورٹ کرتا ہے پاکستان میں‌ قارئین کے دو بڑے طبقے ہیں لکھاری کو ان میں‌سے کسی ایک کی حمایت اور کسی ایک کی مخالفت کرنی پڑتی ہےاس لیے صحافتی غیر جانب داری تحقیق اور تلاش تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے ناجی صاحب کو سیکولر اور بائیں بازو کا پرزور حامی بلکہ راہنما کالم نگار سمجھا جاتا ہے ان کی خوبی یہ کہ یہ ہر حکومت کے ساتھ تعلق بنا لیتے ہیں نواز شریف کے ساتھ رہے اورمشرف کو ان کی ضرورت پرتی رہی کیا انہیں حکومت کی ضرورت ہے یا حکومت کو ان کی یہ اگلہ وقت بتائے گا اختلاف رائے کے باوجو سیاسی تجریہ ان کا جان دار ہوتا ہے مگر مزہب کی مخالفت پر انہیں خاصا جز باتی لگاوء ہے لال مسجد پرحملے کے حق می انہوں نے کافی عرصے مہم چلا ئے رکھی اورجب اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تو سب سے پہلے مزمت بھی انہوں نے کی۔ان کا کوئی مستقل ہیرو نہیں ہوتا زرداری بھی انکے مستقل ہیرو نہیں رہیں گئے صحافیوں اورکالم نگاروں کا کوئی ہیرو ہوتا ہے نہ مستقل وولن مگر ناجی صاحب کے ہیروبھی ہوتے اوروہ انہیں آسانی سے بدلتے رہتے ہیں اور وولن (مذہبی طبقہ (ایک ہی رہتا ہے بدلتا نہیں
 

محسن حجازی

محفلین
سیاسی بیانات کو آپ اچھے اقدامات کہتے ہیں؟

اتنی ہی توفیق ہے جناب ان کی :rolleyes:
بدعنوان کرپٹ نااہل مفاد پرست وطن فروش۔
ناجی صاحب کا تو کالم پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں، پیسے دے کر کچھ بھی لکھوا لیجئے۔
صدر تو منتخب ہے لیکن پچھلے صدر پر بھی بھاری رہے گا۔
 

محسن حجازی

محفلین
ویسے یہ لکھنے کے کتنے پیسے لیتے ہیں؟ کسی کو کچھ اندازہ ہے؟ :roll:

کاشف بھائی نواز دور میں انہوں نے نواز شریف سے شاید لاہور میں کمرشل پلاٹس لیے تھے۔ اس بارے میں ایم این اے خواجہ آصف حمید نے مشرف دور میں ناجی صاحب کو ایک کالم میں بری طرح آئینہ دکھایا تھا جس کے بعد ناجی صاحب کی طرف سے طویل خاموشی رہی۔ اس کوئی ایک ماہ بعد ناجی صاحب پھر سے غزل سرا ہوئے اور صفائی میں یہ مشہور عالم فقرہ کہا:
قلم کی مزدوری لیتا ہوں تو اس میں کیا حرج ہے؟

مجھے وہ کالم بہرطور تلاش کرنا پڑیں گے۔
یہ زرداری صاحب ناجی صاحب کے بچوں کو گود بھی لے چکے ہیں اس پر بھی ہم لکھ چکے ہیں اپنے کسی مراسلے میں۔ :rolleyes:
زرداری جیسے دو کوڑی کے بدعنوان افراد جو کسی کی قبر پر کھڑا ہو کر بمشکل قد اونچا کر پائے ہیں، ناجی صاحب اس سیاستدان کے لیے بے شرمی سے رطب اللسان ہیں۔
یہاں اسلام آباد میں واقفان حال بتاتے ہیں کہ زاردی صاحب کے آدمی کس سیٹ کا کیا مانگتے ہیں۔ آپ کو بننا ہو ڈائریکٹر جنرل وغیرہ تو بتائيے ;)
 

کاشف رفیق

محفلین
کاشف بھائی نواز دور میں انہوں نے نواز شریف سے شاید لاہور میں کمرشل پلاٹس لیے تھے۔ اس بارے میں ایم این اے خواجہ آصف حمید نے مشرف دور میں ناجی صاحب کو ایک کالم میں بری طرح آئینہ دکھایا تھا جس کے بعد ناجی صاحب کی طرف سے طویل خاموشی رہی۔ اس کوئی ایک ماہ بعد ناجی صاحب پھر سے غزل سرا ہوئے اور صفائی میں یہ مشہور عالم فقرہ کہا:
قلم کی مزدوری لیتا ہوں تو اس میں کیا حرج ہے؟

مجھے وہ کالم بہرطور تلاش کرنا پڑیں گے۔
یہ زرداری صاحب ناجی صاحب کے بچوں کو گود بھی لے چکے ہیں اس پر بھی ہم لکھ چکے ہیں اپنے کسی مراسلے میں۔ :rolleyes:
زرداری جیسے دو کوڑی کے بدعنوان افراد جو کسی کی قبر پر کھڑا ہو کر بمشکل قد اونچا کر پائے ہیں، ناجی صاحب اس سیاستدان کے لیے بے شرمی سے رطب اللسان ہیں۔
یہاں اسلام آباد میں واقفان حال بتاتے ہیں کہ زاردی صاحب کے آدمی کس سیٹ کا کیا مانگتے ہیں۔ آپ کو بننا ہو ڈائریکٹر جنرل وغیرہ تو بتائيے ;)

اللہ معاف ہی رکھے ایسی سیٹوں اور نوکریوں سے۔ :(

کالم ضرور شیئر کیجئے گا اور زرداری کے بچوں والا کیا معاملہ ہے؟
 

فاروقی

معطل
کاشف بھائی نواز دور میں انہوں نے نواز شریف سے شاید لاہور میں کمرشل پلاٹس لیے تھے۔ اس بارے میں ایم این اے خواجہ آصف حمید نے مشرف دور میں ناجی صاحب کو ایک کالم میں بری طرح آئینہ دکھایا تھا جس کے بعد ناجی صاحب کی طرف سے طویل خاموشی رہی۔ اس کوئی ایک ماہ بعد ناجی صاحب پھر سے غزل سرا ہوئے اور صفائی میں یہ مشہور عالم فقرہ کہا:
قلم کی مزدوری لیتا ہوں تو اس میں کیا حرج ہے؟


مجھے وہ کالم بہرطور تلاش کرنا پڑیں گے۔
یہ زرداری صاحب ناجی صاحب کے بچوں کو گود بھی لے چکے ہیں اس پر بھی ہم لکھ چکے ہیں اپنے کسی مراسلے میں۔ :rolleyes:
زرداری جیسے دو کوڑی کے بدعنوان افراد جو کسی کی قبر پر کھڑا ہو کر بمشکل قد اونچا کر پائے ہیں، ناجی صاحب اس سیاستدان کے لیے بے شرمی سے رطب اللسان ہیں۔
یہاں اسلام آباد میں واقفان حال بتاتے ہیں کہ زاردی صاحب کے آدمی کس سیٹ کا کیا مانگتے ہیں۔ آپ کو بننا ہو ڈائریکٹر جنرل وغیرہ تو بتائيے ;)


محترم ......کہیں سن نہ لیں سچی بات زرداری صاحب اس لیے.......ہاتھ ہولا رکھیں.......کہ وہ پہچ والے یعنی صد ر بھی ہیں....
 

امکانات

محفلین
شاید کچھ اس بارے زبیر احمد ظہیر صاحب روشنی ڈال سکیں..........کیونکہ وہ ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں موصوف کے بارے میں.....

بڑے اورمشھور لوگ پہسہ نہیں‌لیتے کوئی کام نکلوالیتے ہیں‌ دوسری بات طہ شدہ معاوضہ صرف ملازمت کی تنخواہ ہوتی ہے ھدیہ شکرانہ ،چائے ہانی رشوت لفافے کوئی گن کر نہیں‌ لیتا
 

طالوت

محفلین
اللہ اللہ اتنی بد گمانیاں نزیر ناجی سے ؟ بھئی اگر وہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں تو کیا برائی ہے ؟؟
مجھ سے کسی بد دماغ "دانشور" کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم کی حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ جسے موقع مل رہا ہے وہ "کھ"ا رہا ہے اور جسے (مجھ سے کو) موقع نہیں مل رہا وہ "شور" مچا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے میری بہن نے تو زرداری کی کچھ اچھائی بیان کرنا تھی اور بلاشبہ کوئی بھی سارے کا سارا برا نہیں ہوتا لیکن یہاں تو موضوع نذیر ناجی نکل آیا ۔۔۔۔۔۔
ویسے بہن کہیں آپ بھی اس "سازش" میں شریک تو نہیں ؟؟ :)
وسلام
 
Top