ایس ایس ساگر
لائبریرین
ایک پرانی تحریر پیش خدمت ہے۔ ہمیشہ کی طرح احباب کی طرف سے اصلاح و رہنمائی کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔
خزاں کا موسم تھا۔درختوں سے پتے جَھڑ رہے تھے۔ بل کھاتی سڑک کے دونوں جانب ٹنڈ منڈ درخت صف باندھے کھڑے تھے ۔اِردگرد زرد پتوں کے ڈھیرلگے تھے۔ شاخوں سے پتے ٹوٹتے، پل بھر کو ہوا کے دوش پہ رقص کرتے اور پھر بے دم ہو کر اِدھر اُدھر بکھر جاتے۔ میں گھر سے چہل قدمی کرنے نکلا تھا۔شام کاحسیں وقت تھا۔ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ میں قدرت کے دلفریب نظاروں میں کھویاسڑک کنارے آہستہ آہستہ چلا جا رہاتھا۔ میرے پیروں کے نیچےسُوکھے پتےچرچراہٹ سی پیدا کررہے تھے اور میں انہیں مسلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اچانک ایک پھیلے ہاتھ نے میرا راستہ روک لیا۔میرے قدم جم گئے۔ نگاہ اُٹھائی تو حیرت کا جھٹکا لگا۔میرے سامنے ایک معصوم سابچہ کھڑا تھا، جس کی عُمر بمشکل نو دس سال ہوگی ۔حیرت مجھے اس کی حالت دیکھ کر ہوئی۔ اندر کودھنسی ہوئی چھوٹی سی بےنورآنکھیں ، جن سے انجانا درد جھلک رہا تھا۔ پچکے ہوئے رخسار، جو بھوک و افلاس کی کھُلی نشانی تھے ۔ گردآلُود، اُلجھے ہوئے بال ، جنہیں ماں کے ہاتھوں سنورے شاید زمانہ بیت گیا تھا۔بدن پر کپڑوں کی جگہ چیتھڑےلٹک رہےتھے۔بچے کی حالت دیکھ کر مجھےپہلی بار یہ احساس ہوا کہ پیڑوں کی طرح بعض بچپن بھی کس قدر خزاں رسیدہ ہوتے ہیں۔
ابھی میری نظریں اُس بچے کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں کہ اس جیسی شکل و صورت کا مالک ایک اور معصوم بچہ قریب آ کھڑا ہوا۔ اگرچہ وہ عمر میں کچھ چھوٹامعلوم ہوتا تھا لیکن اس کی حالت پہلے والے بچےسے چنداں مختلف نہ تھی۔ شاید وہ دونوں بھائی تھے۔"تم دونوں بھائی ہو ؟ "۔ بے اختیار میں نے پوچھ لیا۔ ہاں ، بابوجی! ہم دونوں بھائی ہیں۔ پہلے والےبچے نےجواب دیا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے پھرسوال کیا۔ میرا نام ساجھُوہے بابوجی!۔ اُسی بچے نے جواب دیا۔میرے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے اصل نام سے مکمل طور پر لا علم تھا ۔ شاید کبھی کسی نے اسے اصلی نام سے پکارنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔ "بھائی! مجھے بھُوک لگی ہے۔" چھوٹےبچےنے اچانک اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ تھام لیا۔"صبرکرو بھائی! گھرجا کر ہی کھانے کو کچھ ملے گا۔ اگر مانگے ہوئے پیسوں سے میں نے تمہیں کچھ لے دیا تو بابا بہت مارے گا۔"ساجھُونے پیار سے چھوٹے بھائی کو سمجھایا تو اُس کی بات اثر کر گئی اور وُہ چپ ہو رہا۔ "بیٹا! تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟۔ یہ تو تمہارے کھیلنے کُودنے اور پڑھنے لکھنے کے دن ہیں؟" میں نے ہمدردی سے پوچھا۔
اُسی لمحے ایک طرف سے شور سنائی دیا۔چند بچے ہاتھوں میں فٹبال تھامےسڑک کے بیچ و بیچ اٹکھیلیاں کرتے ہمارے پاس سے گزرتے چلے گئے۔ بچوں کواُچھلتے کودتے دیکھ کر وہ دونوں بھائی حسرت زدہ نظروں سے انہیں دُور جاتا ہوا دیکھنے لگے۔ "کھیلنا اور پڑھنا لکھنا ہمارے مقدر میں کہاں بابوجی! با با کہتا ہےکہ یہ امیر زادوں کا کام ہے۔ہمارے نصیب میں توصرف بھیک مانگنا لکھا ہے۔ ساجھُو نے سرد آہ بھری۔ کیا تمہاری ماں بھی یہی کہتی ہے؟ میرے سوال پرساجھُوکے چہرے پر کرب کے آثار نمودار ہو نے لگے۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔ ماں ہمیں چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ چلی گئی ہے۔ بابا نشے کا عادی ہے۔ اُس کا نشہ پورا کرنے کے لیے ہم سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ ہم سے خوش نہیں ہوتا۔ ہر وقت غصہ میں رہتااورہمیں مارتا بھی ہے۔ اگر کسی دن بھیک کم ملے تو کھانے کو روٹی بھی نہیں ملتی۔"ساجھو نے روہانسے لہجے میں کہا۔ اس کی باتیں سن کر مجھےیوں لگ رہا تھا جیسے میرے سامنے کسی معصوم بچے کے بجائے کوئی ساٹھ ستر سال کا بوڑھا کھڑا ہو۔ میں اس امر پرحیران تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو بھی والدین کا درجہ حاصل ہے جو خوداپنےہاتھوں اپنے بچوں کے مستقبل کا گلا گھونٹ رہے ہیں ۔
اچانک ایک ریڑھی والا قریب سے صدا لگاتا ہوا گزرا تو میں چونک گیا۔میں نے ریڑھی والےسے کچھ پھل خرید کر بچوں کودئیےتاکہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں ۔ وہ بیچارے نجانے کب سے بھوکے تھے کہ منٹوں میں سب کچھ چٹ کر گئے۔اب وہ شکر گزار نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ "تمہارا جی چاہتا ہے بھیک مانگنے کو؟"۔ انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر میں نے ایک بے تُکا سا سوال کر دیا۔جواب میری توقع کے عین مطابق ملا۔ "کس کا جی چاہتا ہے بابوجی! کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ؟مگرمجبوری سب کچھ کروادیتی ہے۔ بابا کہتا ہے کہ ہم اپنے نصیب کے قیدی ہیں ۔ چاہنے کے باوجود بدنصیبی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ہم لوگ پیدا ہی بھیک مانگنے کے لیے ہوئے ہیں "۔ ساجھو کے لہجےمیں گہری افسردگی کا عنصر غالب تھا۔اُس کا چھوٹا بھائی خاموش کھڑا اِدھر اُدھرگھومتے خوشنما لباس میں ملبوس بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ میں بھی اب چپ تھا۔ ساجھوکی باتیں میری روح کو بری طرح گھائل کر چکی تھیں۔ سچ یہ ہے کہ اس دن میں مزیدسوال کرنے کی ہمت کھو بیٹھا تھا۔ سوچ رہا تھاکہ بچوں کی دنیا تو تتلیوں اور رنگوں سے عبارت ہوتی ہے۔ پھرنجانے وہ کیسے باغباں تھے جنہوں نے کھلنے سےقبل ہی معصوم غنچوں کو پیام ِ خزاں سنا دیا۔
میں نے جیب سے کچھ رقم نکال کر بچوں کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ یہ رقم نشے کی بھینٹ چڑھ جائے گی ۔ مگراس کے سوا میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ مجھے تو محض پھیلے ہاتھوں کا مان رکھنا تھا۔ اُسی وقت اچانک چھوٹےبچے نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہونے لگے۔پھر اُسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ میں نے بڑھ کر اُسے سنبھالا۔ اس کا زردی مائل چہرہ مزید پیلا پڑ گیا تھا۔ "کیا ہوا اِسے ؟" میں نےساجھو سے پوچھا۔ " کچھ نہیں بابوجی! یہ بیمار ہے۔ اِسے اکثر ایسے دورے پڑتے ہیں۔ساجھو نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگےتھے۔کیا تمہارےبابا کو اِس کی بیماری کا علم نہیں؟۔ میرا سینہ اُس معصوم کی حالت دیکھ کرغم سے پھٹا جا رہا تھا۔ "معلوم ہے بابوجی!۔ مگر ہمارے پاس علاج کے لیےپیسے کہاں ہیں۔جو پیسے ہم بھیک مانگ کر اکٹھے کرتے ہیں ۔ وہ بابا اپنے نشے پر خرچ کر دیتا ہے۔"ساجھو اب رو رہا تھا۔ میں بے بسی کی تصویر بنا خاموش کھڑا تھا ۔ اُس وقت میں اُن بچوں سے زیادہ مفلس تھا ۔ میرے پاس اُنہیں جھوٹی تسلی دینے کے لیے چندالفاظ بھی نہیں تھے۔ ساجھوکے بھائی کی طبعیت اب قدرےسنبھل گئی تھی۔ "چلو بھائی۔" اچانک ساجھو نے چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھام لیا اور پھروہ دونوں تیزی سے چلتے ہوئے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں سر جھکائے واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ احساسِ بےبسی سے میری آنکھیں پرنم تھیں۔میرے اردگرد زرد پتے رقصاں تھے اورمیں سوچ رہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں نجانے کتنے ایسےبچے ہیں جواپنے والدین کی لاپرواہی اور بے اعتنائی کا شکا ر ہیں۔ وہ ایسے زرد پتے تھے، جو تاحال شجرِ زیست سے پیوستہ تھے مگر کوئی نہیں جانتا کہ کب نامساعد حالات کی ہوا کا کوئی بدمست جھونکا انہیں موت کی وادی میں اُڑا لے جائے۔ اے کاش، اُس ایک بدنصیب لمحے کی آمد سے پہلے، ہم ان تمام بچوں کی اُداس آنکھوں میں خوشی کے رنگ بھر دیں اور ان کے لبوں کو مسکرانا سکھا دیں ۔ تبھی ہم اپنی دنیا کوخزاں رسیدہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
خزاں کا موسم تھا۔درختوں سے پتے جَھڑ رہے تھے۔ بل کھاتی سڑک کے دونوں جانب ٹنڈ منڈ درخت صف باندھے کھڑے تھے ۔اِردگرد زرد پتوں کے ڈھیرلگے تھے۔ شاخوں سے پتے ٹوٹتے، پل بھر کو ہوا کے دوش پہ رقص کرتے اور پھر بے دم ہو کر اِدھر اُدھر بکھر جاتے۔ میں گھر سے چہل قدمی کرنے نکلا تھا۔شام کاحسیں وقت تھا۔ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ میں قدرت کے دلفریب نظاروں میں کھویاسڑک کنارے آہستہ آہستہ چلا جا رہاتھا۔ میرے پیروں کے نیچےسُوکھے پتےچرچراہٹ سی پیدا کررہے تھے اور میں انہیں مسلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اچانک ایک پھیلے ہاتھ نے میرا راستہ روک لیا۔میرے قدم جم گئے۔ نگاہ اُٹھائی تو حیرت کا جھٹکا لگا۔میرے سامنے ایک معصوم سابچہ کھڑا تھا، جس کی عُمر بمشکل نو دس سال ہوگی ۔حیرت مجھے اس کی حالت دیکھ کر ہوئی۔ اندر کودھنسی ہوئی چھوٹی سی بےنورآنکھیں ، جن سے انجانا درد جھلک رہا تھا۔ پچکے ہوئے رخسار، جو بھوک و افلاس کی کھُلی نشانی تھے ۔ گردآلُود، اُلجھے ہوئے بال ، جنہیں ماں کے ہاتھوں سنورے شاید زمانہ بیت گیا تھا۔بدن پر کپڑوں کی جگہ چیتھڑےلٹک رہےتھے۔بچے کی حالت دیکھ کر مجھےپہلی بار یہ احساس ہوا کہ پیڑوں کی طرح بعض بچپن بھی کس قدر خزاں رسیدہ ہوتے ہیں۔
ابھی میری نظریں اُس بچے کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں کہ اس جیسی شکل و صورت کا مالک ایک اور معصوم بچہ قریب آ کھڑا ہوا۔ اگرچہ وہ عمر میں کچھ چھوٹامعلوم ہوتا تھا لیکن اس کی حالت پہلے والے بچےسے چنداں مختلف نہ تھی۔ شاید وہ دونوں بھائی تھے۔"تم دونوں بھائی ہو ؟ "۔ بے اختیار میں نے پوچھ لیا۔ ہاں ، بابوجی! ہم دونوں بھائی ہیں۔ پہلے والےبچے نےجواب دیا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے پھرسوال کیا۔ میرا نام ساجھُوہے بابوجی!۔ اُسی بچے نے جواب دیا۔میرے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے اصل نام سے مکمل طور پر لا علم تھا ۔ شاید کبھی کسی نے اسے اصلی نام سے پکارنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔ "بھائی! مجھے بھُوک لگی ہے۔" چھوٹےبچےنے اچانک اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ تھام لیا۔"صبرکرو بھائی! گھرجا کر ہی کھانے کو کچھ ملے گا۔ اگر مانگے ہوئے پیسوں سے میں نے تمہیں کچھ لے دیا تو بابا بہت مارے گا۔"ساجھُونے پیار سے چھوٹے بھائی کو سمجھایا تو اُس کی بات اثر کر گئی اور وُہ چپ ہو رہا۔ "بیٹا! تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟۔ یہ تو تمہارے کھیلنے کُودنے اور پڑھنے لکھنے کے دن ہیں؟" میں نے ہمدردی سے پوچھا۔
اُسی لمحے ایک طرف سے شور سنائی دیا۔چند بچے ہاتھوں میں فٹبال تھامےسڑک کے بیچ و بیچ اٹکھیلیاں کرتے ہمارے پاس سے گزرتے چلے گئے۔ بچوں کواُچھلتے کودتے دیکھ کر وہ دونوں بھائی حسرت زدہ نظروں سے انہیں دُور جاتا ہوا دیکھنے لگے۔ "کھیلنا اور پڑھنا لکھنا ہمارے مقدر میں کہاں بابوجی! با با کہتا ہےکہ یہ امیر زادوں کا کام ہے۔ہمارے نصیب میں توصرف بھیک مانگنا لکھا ہے۔ ساجھُو نے سرد آہ بھری۔ کیا تمہاری ماں بھی یہی کہتی ہے؟ میرے سوال پرساجھُوکے چہرے پر کرب کے آثار نمودار ہو نے لگے۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔ ماں ہمیں چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ چلی گئی ہے۔ بابا نشے کا عادی ہے۔ اُس کا نشہ پورا کرنے کے لیے ہم سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ ہم سے خوش نہیں ہوتا۔ ہر وقت غصہ میں رہتااورہمیں مارتا بھی ہے۔ اگر کسی دن بھیک کم ملے تو کھانے کو روٹی بھی نہیں ملتی۔"ساجھو نے روہانسے لہجے میں کہا۔ اس کی باتیں سن کر مجھےیوں لگ رہا تھا جیسے میرے سامنے کسی معصوم بچے کے بجائے کوئی ساٹھ ستر سال کا بوڑھا کھڑا ہو۔ میں اس امر پرحیران تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو بھی والدین کا درجہ حاصل ہے جو خوداپنےہاتھوں اپنے بچوں کے مستقبل کا گلا گھونٹ رہے ہیں ۔
اچانک ایک ریڑھی والا قریب سے صدا لگاتا ہوا گزرا تو میں چونک گیا۔میں نے ریڑھی والےسے کچھ پھل خرید کر بچوں کودئیےتاکہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں ۔ وہ بیچارے نجانے کب سے بھوکے تھے کہ منٹوں میں سب کچھ چٹ کر گئے۔اب وہ شکر گزار نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ "تمہارا جی چاہتا ہے بھیک مانگنے کو؟"۔ انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر میں نے ایک بے تُکا سا سوال کر دیا۔جواب میری توقع کے عین مطابق ملا۔ "کس کا جی چاہتا ہے بابوجی! کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ؟مگرمجبوری سب کچھ کروادیتی ہے۔ بابا کہتا ہے کہ ہم اپنے نصیب کے قیدی ہیں ۔ چاہنے کے باوجود بدنصیبی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ہم لوگ پیدا ہی بھیک مانگنے کے لیے ہوئے ہیں "۔ ساجھو کے لہجےمیں گہری افسردگی کا عنصر غالب تھا۔اُس کا چھوٹا بھائی خاموش کھڑا اِدھر اُدھرگھومتے خوشنما لباس میں ملبوس بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ میں بھی اب چپ تھا۔ ساجھوکی باتیں میری روح کو بری طرح گھائل کر چکی تھیں۔ سچ یہ ہے کہ اس دن میں مزیدسوال کرنے کی ہمت کھو بیٹھا تھا۔ سوچ رہا تھاکہ بچوں کی دنیا تو تتلیوں اور رنگوں سے عبارت ہوتی ہے۔ پھرنجانے وہ کیسے باغباں تھے جنہوں نے کھلنے سےقبل ہی معصوم غنچوں کو پیام ِ خزاں سنا دیا۔
میں نے جیب سے کچھ رقم نکال کر بچوں کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ یہ رقم نشے کی بھینٹ چڑھ جائے گی ۔ مگراس کے سوا میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ مجھے تو محض پھیلے ہاتھوں کا مان رکھنا تھا۔ اُسی وقت اچانک چھوٹےبچے نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہونے لگے۔پھر اُسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ میں نے بڑھ کر اُسے سنبھالا۔ اس کا زردی مائل چہرہ مزید پیلا پڑ گیا تھا۔ "کیا ہوا اِسے ؟" میں نےساجھو سے پوچھا۔ " کچھ نہیں بابوجی! یہ بیمار ہے۔ اِسے اکثر ایسے دورے پڑتے ہیں۔ساجھو نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگےتھے۔کیا تمہارےبابا کو اِس کی بیماری کا علم نہیں؟۔ میرا سینہ اُس معصوم کی حالت دیکھ کرغم سے پھٹا جا رہا تھا۔ "معلوم ہے بابوجی!۔ مگر ہمارے پاس علاج کے لیےپیسے کہاں ہیں۔جو پیسے ہم بھیک مانگ کر اکٹھے کرتے ہیں ۔ وہ بابا اپنے نشے پر خرچ کر دیتا ہے۔"ساجھو اب رو رہا تھا۔ میں بے بسی کی تصویر بنا خاموش کھڑا تھا ۔ اُس وقت میں اُن بچوں سے زیادہ مفلس تھا ۔ میرے پاس اُنہیں جھوٹی تسلی دینے کے لیے چندالفاظ بھی نہیں تھے۔ ساجھوکے بھائی کی طبعیت اب قدرےسنبھل گئی تھی۔ "چلو بھائی۔" اچانک ساجھو نے چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھام لیا اور پھروہ دونوں تیزی سے چلتے ہوئے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں سر جھکائے واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ احساسِ بےبسی سے میری آنکھیں پرنم تھیں۔میرے اردگرد زرد پتے رقصاں تھے اورمیں سوچ رہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں نجانے کتنے ایسےبچے ہیں جواپنے والدین کی لاپرواہی اور بے اعتنائی کا شکا ر ہیں۔ وہ ایسے زرد پتے تھے، جو تاحال شجرِ زیست سے پیوستہ تھے مگر کوئی نہیں جانتا کہ کب نامساعد حالات کی ہوا کا کوئی بدمست جھونکا انہیں موت کی وادی میں اُڑا لے جائے۔ اے کاش، اُس ایک بدنصیب لمحے کی آمد سے پہلے، ہم ان تمام بچوں کی اُداس آنکھوں میں خوشی کے رنگ بھر دیں اور ان کے لبوں کو مسکرانا سکھا دیں ۔ تبھی ہم اپنی دنیا کوخزاں رسیدہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
آخری تدوین: