زلزلہ

یہ امام غزالی کا نظریہ ہے جو ہر قدرتی آفت کو اللہ کا حکم قرار دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ہر چیز اٹل قوانین قدرت کی پابند ہے۔ خواہ وہ قحت سالی کے بعد بارش کی صورت میں رحمت بن کر نازل ہو یا زیادہ بارش کے بعد سیلاب کی صورت میں عذاب بن کر۔

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”تو جب ان کے پاس ہمارا عذاب آیا تو چاہیے تھا کہ وہ گڑ گڑاتے (یعنی اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتے) لیکن ان کے دل سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظروں میں اچھا بنا دیا تھا۔“ (الانعام آیت نمبر43)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب گناہوں کی وجہ سے دل سخت ہو جاتے ہیں تو انسانوں کو اپنے قصور او رجرم کا احساس نہیں رہتا۔ امام ابن القیم  نے اپنی تصنیف”الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی“ میں زلزلے سے متعلق کئی روایات ذکر فرمائی ہیں، جن میں بعض ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے ساتھ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھی نے ان سے سوال کیا ” ام المؤمنین ہمیں زلزلہ کے متعلق بتائیے کہ وہ کیوں آتا ہے ؟ “ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا” جب لوگ زنا کو حلال کر لیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنالیں تو الله تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اورزمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ برپا کر دے، بس اگر اس علاقے کے لوگ توبہ کر لیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ “ اس شخص نے عرض کیا ”کیا یہ زلزلہ عذاب ہوتا ہے ؟ “ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے فرمایا ”اہل ایمان کے لیے عبرت ونصیحت ہوتی ہے اور جو صالحین اس میں جاں بحق ہو جائیں ان کے لیے رحمت ہے ( یعنی شہادت کا مرتبہ ہے)، البتہ کافروں کے لیے تو زلزلہ قہر اور عذاب الہٰی بن کر آتا ہے۔“ (رواہ ابن ابی الدنیا)

ابن ابی الدنیا نے ایک او رمرسل روایت ذکر کی ہے کہ حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں زلزلے کا جھٹکا محسوس ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمین پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا” اے زمین! تو ساکن ہو جا“ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا” تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اپنی خطاؤں کی معافی مانگو۔ اس کے بعد زلزلے کے جھٹکے رک گئے۔ پھر حضرت عمر بن الخطاب رضی الله تعالیٰ کے زمانہ خلافت میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کیے گئے تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ” اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے ، اگر دوبارہ جھٹکا محسوس ہوا تو میں تم لوگوں کو اس شہر سے بے دخل کردوں گا۔“ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ ” تم لوگوں نے کیا نئی روش اختیار کی ہے ؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اتنی جلدی تمہارا حال بگڑ گیا ہے ۔“
 

آصف اثر

معطل
یہ امام غزالی کا نظریہ ہے جو ہر قدرتی آفت کو اللہ کا حکم قرار دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ہر چیز اٹل قوانین قدرت کی پابند ہے۔ خواہ وہ قحت سالی کے بعد بارش کی صورت میں رحمت بن کر نازل ہو یا زیادہ بارش کے بعد سیلاب کی صورت میں عذاب بن کر۔
تو کیا آپ کا مطلب ہے یہ کائنات اللہ کی مرضی کے برعکس چل رہاہے۔ جیسا کہ دہریوں کا نظریہ ہے(نعوذ باللہ)؟
ایک کمپیوٹر خود بخود نہیں چل سکتا تو کیا یہ زمین ویسے ہی بنی؟ یہ سب کچھ ویسے ہی خود بخود ہورہا ہے؟یہ انسان ویسے ہی پیدا ہوئے اور یہ ویسے ہی مرجائیں گے؟
 

عبد الرحمن

لائبریرین
باقی باتیں تو ایک طرف۔ لیکن یہاں بھی ہم دوستوں نے ایک دوسرے کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بحث کا بڑا دہکتا ہوا بازار گرم کردیا اور منفی ریمارکس کے تابر توڑ حملے شروع کردیے۔

واضح رہے کہ بات بے بات کی یہ منفی ریٹنگز بھی بد اعمالیوں کے ہی زمرے میں آتی ہے۔ :)

کھلے دل اور دوستانہ انداز میں ایک دوسرے کا موقف اور نظریہ سننا سنانا ہم سب کا اخلاقی فرض ہے۔ اللہ نے چاہا تو کبھی تو یہ بات ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب و متمدن دوستوں کی سمجھ آ ہی جائے گی۔
 

زیک

مسافر
قدرتی آفات کے نتیجے میں اپنے فانی ہونے یا اچھائی کرنے کے بارے میں سوچنا ایک بات ہے اور یہ خیال کر لینا کہ دنیا کے زیادہ گناہ فالٹ لائنز کے آس پاس ہوتے ہیں بالکل دوسری بات۔
 
توبہ بھئی یہ ٹھیک ہے کہ زلزلے زیر زمین پلیٹوں کی حرکت سے ہی آتے ہیں مگر یار یہ اللہ کا حکم ہوتا ہے تو ایسا ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ہر وقت استغفار کرنا چاہیے۔
 
Top