کاشفی
محفلین
غزل
(دلشاد نظمی - جُبیل، سعودی عرب)
زمانے کو نہ کچھ کہیئے، وہ ایسا ہو نہیں سکتا
اِک آئینہ ہے وہ، آئینہ چہرہ ہو نہیں سکتا
خدا کے ہاتھ میں ہے کُنجیاں عزت و ذلت کی
کسی کے چاہنے سے کوئی رسوا ہو نہیں سکتا
ہمیشہ ڈھونڈتا رہتا ہو جو اوروں کے عیبوں کو
کسی کا ہو نہ ہو وہ شخص اپنا ہو نہیں سکتا
چلو میں مانتا ہوں اُس نے دل کی بات کہہ دی ہے
وہ سچا ہوگا پر اتنا بھی سچا ہو نہیں سکتا
عیادت کیجئے، ہرگز نہ کوئی مشورہ دیجئے
مِرا بیمار ہے، اوروں سے اچھا ہو نہیں سکتا
جو بوؤ گے وہی کاٹو گے یہ تو عین فطرت ہے
انا کی فصل میں تو عجز پیدا ہو نہیں سکتا
ملو بندوں سے بندے کی طرح، اوقات میں رہ کر
مِرے ہوتے انالحق کا تماشہ ہو نہیں سکتا
محبت مخلصوں کے گھر میں باندی بن کے رہتی ہے
تکبر والا کوئی اُس کا آقا ہو نہیں سکتا
میں اُس کو زاویوں سے راستہ سمجھا تو دوں لیکن
مگر دلشاد نظمی ختم قصہ ہو نہیں سکتا
(دلشاد نظمی - جُبیل، سعودی عرب)
زمانے کو نہ کچھ کہیئے، وہ ایسا ہو نہیں سکتا
اِک آئینہ ہے وہ، آئینہ چہرہ ہو نہیں سکتا
خدا کے ہاتھ میں ہے کُنجیاں عزت و ذلت کی
کسی کے چاہنے سے کوئی رسوا ہو نہیں سکتا
ہمیشہ ڈھونڈتا رہتا ہو جو اوروں کے عیبوں کو
کسی کا ہو نہ ہو وہ شخص اپنا ہو نہیں سکتا
چلو میں مانتا ہوں اُس نے دل کی بات کہہ دی ہے
وہ سچا ہوگا پر اتنا بھی سچا ہو نہیں سکتا
عیادت کیجئے، ہرگز نہ کوئی مشورہ دیجئے
مِرا بیمار ہے، اوروں سے اچھا ہو نہیں سکتا
جو بوؤ گے وہی کاٹو گے یہ تو عین فطرت ہے
انا کی فصل میں تو عجز پیدا ہو نہیں سکتا
ملو بندوں سے بندے کی طرح، اوقات میں رہ کر
مِرے ہوتے انالحق کا تماشہ ہو نہیں سکتا
محبت مخلصوں کے گھر میں باندی بن کے رہتی ہے
تکبر والا کوئی اُس کا آقا ہو نہیں سکتا
میں اُس کو زاویوں سے راستہ سمجھا تو دوں لیکن
مگر دلشاد نظمی ختم قصہ ہو نہیں سکتا