الف نظامی
لائبریرین
جس دل میں نور عشق ہے ذات الہ کا
اس کو نہیں ہے خوف کوئی ماسواہ کا
اس کا تو ہر فقیر ہے دنیا کا تاجور
ہر تاجور فقیر ہے اس بادشاہ کا
ڈالی ہے اس نے دہر کو زنجیر وقت کی
گویا ہے یہ جو سلسلہ شام و پگاہ کا
شاہد ہے اس پہ گردش لیل و نہار بھی
مختار ہے جہان کے سفید و سیاہ کا
چاہے تو مچھروں سے دے نمرودیوں کو مار
چاہے تو زور مور کو بخشے سپاہ کا
ظالم تجھے تو فکر شکم نے ہی کھا لیا
اٹھ چارہ ڈھونڈ ظلمت قلب و نگاہ کا
کر اختیار جیسے بھی ہو راہ بندگی
ہاں زیست سے سلیقہ یہی ہے نباہ کا
پردے تعینات کے چیر اور دیکھ اسے
ہر ذرہ باب نور ہے اس بارگاہ کا
حمد خدا میں کیوں نہ گہر ریز ہو قلم
آسی گدا ہے سید رحمت پناہ کا
اس کو نہیں ہے خوف کوئی ماسواہ کا
اس کا تو ہر فقیر ہے دنیا کا تاجور
ہر تاجور فقیر ہے اس بادشاہ کا
ڈالی ہے اس نے دہر کو زنجیر وقت کی
گویا ہے یہ جو سلسلہ شام و پگاہ کا
شاہد ہے اس پہ گردش لیل و نہار بھی
مختار ہے جہان کے سفید و سیاہ کا
چاہے تو مچھروں سے دے نمرودیوں کو مار
چاہے تو زور مور کو بخشے سپاہ کا
ظالم تجھے تو فکر شکم نے ہی کھا لیا
اٹھ چارہ ڈھونڈ ظلمت قلب و نگاہ کا
کر اختیار جیسے بھی ہو راہ بندگی
ہاں زیست سے سلیقہ یہی ہے نباہ کا
پردے تعینات کے چیر اور دیکھ اسے
ہر ذرہ باب نور ہے اس بارگاہ کا
حمد خدا میں کیوں نہ گہر ریز ہو قلم
آسی گدا ہے سید رحمت پناہ کا
از پروفیسر محمد حسین آسی رحمۃ اللہ علیہ