ز من گرت نبوَد باور انتظار، بیا
بهانهجوی مباش و ستیزهکار بیا
[ اگر تجھے اس بات کا یقین نہیں کہ میں تیرے انتظار میں ہوں، تو آ جا (اور دیکھ لے). بہانے مت تلاش کر، اور لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ جا۔ ]
به یک دو شیوه ستم دل نمیشود خرسند
به مرگِ من، که به سامانِ روزگار بیا
[ میرا دل تیرے ایک دو اندازِ ستم سے خوش نہیں ہوتا۔ تجھے میری موت کی قسم، (مجھ پر ستم ڈھانے کے لیے) زمانے بھر کا سامان لے کر آ جا۔ ]
بهانهجوست در الزامِ مدّعی شوقت
یکی به رغمِ دل ناامیدوار بیا
[ میری تجھ سے محبت (تیرے نہ آنے کا) الزام رقیب کے سر دینے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ کبھی تو اس ناامید دل کی اس سوچ کے برعکس آ جا۔ ]
هلاکِ شیوهٔ تمکین مخواه مستان را
عنان گسستهتر از بادِ نوبهار بیا
[ اپنے مستوں کو اپنے شیوۂ تمکیں (یعنی ناز و دبدبۂ حسن) سے ہلاک کرنا مت چاہ۔ رفتار کی سب لگامیں توڑ کر بادِ نو بہار سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آ جا۔ ]
ز ما گسستی و با دیگران گرو بستی
بیا، که عهدِ وفا نیست استوار، بیا
[ جب تو نے ہم سے پیمانِ وفا توڑ کر اوروں کے ساتھ یہ عہد باندھ لیا، تو آ کہ عہدِ وفا کبھی محکم و استوار نہیں ہوتا (کہ تو ہمارے ساتھ کیا عہد شکستہ کر چکا)، آ جا۔ ]
وداع و وصل جداگانه لذّتی دارد
هزار بار برو، صدهزار بار بیا
[ وداع اور وصل دونوں جداگانہ لذتیں رکھتے ہیں۔ تُو ہزار بار جا، اور صد ہزار بار واپس آ جا۔ ]
تو طفلِ سادهدل و همنشین بدآموزست
جنازه گر نتوان دید، بر مزار بیا
[ تو ایک بھولے بھالے بچے کی طرح ہے، اور تیرا ہم نشیں (رقیب) تجھے غلط اور الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے والا ہے۔ پس اگر تو ہمارا جنازہ نہ دیکھ سکا، تو ہمارے مزار ہی پر آ جا۔ ]
فریبخوردهٔ نازم، چهها نمیخواهم!
یکی به پرسشِ جانِ امیدوار بیا
[ میں (تیرے) ناز و ادا کا فریب خوردہ اور مارا ہوا ہوں، میں کیا کیا نہیں چاہتا! ایک بار تو اس جانِ امیدوار کا احوال پوچھنے آ جا۔ ]
ز خویِ توست نهادِ شکیب نازکتر
بیا که دست و دلم میروَد زِ کار، بیا
[ تیری نزاکتِ طبع کی نسبت میرے صبر کی بنیاد نازک تر ہو چکی ہے۔ آ کہ میرے دست و دل بے کار ہوئے جاتے ہیں (یعنی نہ قوتِ کار ہے، نہ جذبۂ قلبی)، آ جا۔ ]