وہیں چل کر فسادات کرتے ہیں۔ پھر بڑھیا مریخ چلی جائیگی اور ہمارے ملک کا نام ہوگا۔۔نیل آرمسٹرانگ نے کہا تھا انہیں کہ آپ پاکستانی ہیں واپس چلیں انہوں نے کہا نہیں یہاں اور پاکستان میں کیا فرق ہے؟ میں یہییں رہوں گی نا بجلی ہے نا پانی نا حکومت پر کم از کم دھماکے نہیں ہوتے نا طالبان ہیں
سچ یہ ہے کہ مذہبی عقیدت کی بنا پر جعلی ساینس تخلیٖق کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔اچھا، کتنی؟
آپ ہی کوئی سچ سنا دیں محترم۔۔۔ ۔۔۔ !
نا کرو یار بے چاری یہاں سے تھک ہار کر گئی ہے اب اگلے مشن کے لیئے اسے ٹرن اراؤنڈ ٹائم تو دینا چاہیے اتنی جلدی تو امریکی جہازوں کے انجن بھی ٹھندے نہیں ہوتے وہ تو پاکستانی استمال کر رہی ہےوہیں چل کر فسادات کرتے ہیں۔ پھر بڑھیا مریخ چلی جائیگی اور ہمارے ملک کا نام ہوگا۔۔
گڈ پاکستانی، یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔۔!چاند زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر دور ہماری زمین کے قریب ترین سیارہ ہے یہ زمین کے گرد گھومتا ہے جبکہ مریخ سورج کے گرد ۔
مریخ زمین سے جب قریب ترین ہوتا ہے اس کا فاصلہ 54 اشاریہ چھ ملین کلو میٹر ہے اور جب دور ہو تو 225 ملین کلو میٹر ہوتا ہے
اب اگر وہ کہہ دیتا کہ زمین سے مزید دوری ہے جاتے ہوئے مزید تصاویر بنائی تو ہم کیا بگاڑ لیتے ۔ اصل میں یہ کوئی ٹرپ نہیں تھا کہ مدار سے نکل کر رک کر تصاویر بنائی جاتی ۔ اپولو سسٹم سٹرن راکٹ پر پر نصب تھا۔ اس طرح اس مین نا کوئی کھڑکی تھا نا شیشہ کہ تصاویر بنائی جاتی وہ بھی الٹی ڈریکشن میں جبکہ میزائیل انہین رمین سے دور دھکیل رہا تھا مین راکٹ 7 منٹ میں جل کر ختم ہو گیا تھا اور بھر دوسرے نے کام کرنا شروع کر دیا تھا 28 ہزار کلو میٹر فئ گھنٹہ کی رفتار سے ۔ اس محدود وقت میں جب آپ ہزاروں میل بھی گھنٹہ سے ایک راکٹ کے وار ہیڈ والی جگی پر ٹائٹ بندھے پڑے ہوں ۔یہ کیسے ممکن ہے ؟ اور اس وقت کونسے ایسے سمارٹ کیمرے تھے جن سے فوٹو بنائے گئے ہزاروں کلو میٹر زوم کر کے یا جیسے یہ کہہ رہا ہے انفرائیڈ شعاؤں کے بارے میں ؟ انفرائیڈ موبائیل کیمرے آج بھی اتنے چھوٹے نہیں ۔ یہ ساری کہانی لغؤ اور بکواس ہے بسگڈ پاکستانی، یہ ہوئی نا بات۔۔۔ ۔۔!
یہی وہ دلائل ہیں جن کو در خور اعتنا سمجھا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے تو محض ایک ٹائپو کی بنیاد پر ۔۔۔ جس میں ٹائپسٹ نے روا روی میں چاند کی بجائے مریخ ٹائپ کر دیا ۔۔۔ بزجمہران محفل پورے بیان کو جھوٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ پاکستانی کی جانب سے دلائل کے ساتھ بات کی گئی ہے یہ امر قابل تعریف ہےاب اگر وہ کہہ دیتا کہ زمین سے مزید دوری ہے جاتے ہوئے مزید تصاویر بنائی تو ہم کیا بگاڑ لیتے ۔ اصل میں یہ کوئی ٹرپ نہیں تھا کہ مدار سے نکل کر رک کر تصاویر بنائی جاتی ۔ اپولو سسٹم سٹرن راکٹ پر پر نصب تھا۔ اس طرح اس مین نا کوئی کھڑکی تھا نا شیشہ کہ تصاویر بنائی جاتی وہ بھی الٹی ڈریکشن میں جبکہ میزائیل انہین رمین سے دور دھکیل رہا تھا مین راکٹ 7 منٹ میں جل کر ختم ہو گیا تھا اور بھر دوسرے نے کام کرنا شروع کر دیا تھا 28 ہزار کلو میٹر فئ گھنٹہ کی رفتار سے ۔ اس محدود وقت میں جب آپ ہزاروں میل بھی گھنٹہ سے ایک راکٹ کے وار ہیڈ والی جگی پر ٹائٹ بندھے پڑے ہوں ۔یہ کیسے ممکن ہے ؟ اور اس وقت کونسے ایسے سمارٹ کیمرے تھے جن سے فوٹو بنائے گئے ہزاروں کلو میٹر زوم کر کے یا جیسے یہ کہہ رہا ہے انفرائیڈ شعاؤں کے بارے میں ؟ انفرائیڈ موبائیل کیمرے آج بھی اتنے چھوٹے نہیں ۔ یہ ساری کہانی لغؤ اور بکواس ہے بس
تلے ہوئے تھے یا نہیں پر ان کے ڈاکر نے چول ہی ایسی مار دی بھائی جان کہ عش عش اٹھے لوگ ابھی تو میں نے تصاویر نہیں لگائی ورنہ آگ لگ جاتی پانی میںیہی وہ دلائل ہیں جن کو در خور اعتنا سمجھا جا سکتا ہے ۔۔۔ ۔ ورنہ اس سے پہلے تو محض ایک ٹائپو کی بنیاد پر ۔۔۔ جس میں ٹائپسٹ نے روا روی میں چاند کی بجائے مریخ ٹائپ کر دیا ۔۔۔ بزجمہران محفل پورے بیان کو جھوٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔۔۔ ۔۔ پاکستانی کی جانب سے دلائل کے ساتھ بات کی گئی ہے یہ امر قابل تعریف ہے
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنی ایک کتاب میں ضیاء الحق کے زمانے پاکستان میں اسلامی سائنس کی تخلیق پر خاصی روشنی ڈالی ہے اور بالآخر ڈاکٹر پرویز بھی اس کٹہرے میں ہیں جو ملاازم کی جانب سےملحدوں ، زندیقوں ، امریکی پٹھوؤں کے نام سے موسوم ہے۔سچ یہ ہے کہ مذہبی عقیدت کی بنا پر جعلی ساینس تخلیٖق کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اس سے بڑھ کہ اس قوم کی بدقسمتی کیا ہو گی؟ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنی ایک کتاب میں ضیاء الحق کے زمانے پاکستان میں اسلامی سائنس کی تخلیق پر خاصی روشنی ڈالی ہے اور بالآخر ڈاکٹر پرویز بھی اس کٹہرے میں ہیں جو ملاازم کی جانب سےملحدوں ، زندیقوں ، امریکی پٹھوؤں کے نام سے موسوم ہے۔