میرا جی زمیں پہ سبزہ لہک رہا ہے، فلک پہ بادل دُھواں دُھواں ہے

طارق شاہ

محفلین
غزل
میراجی
زمیں پہ سبزہ لہک رہا ہے، فلک پہ بادل دُھواں دُھواں ہے
مگرجو دل کے مِزاج پُوچھو ہمارے دل کا عجب سماں ہے
نہ قافلہ چاند کا ہویدہ، نہ منزلِ نُورِ صبْح پیدا
کہِیں گزرگاہِ کہکشاں ہے، کہِیں غُبارِ سِتارگاں ہے
نہ ایسے آنے کی آرزو تھی، نہ ایسے جانا ہماری خُو تھی
ہمارے دل کی بھی آبرو تھی، مگر وہ پہلا سا دل کہاں ہے
نہ اُن کے چہرے کی دھوپ دیکھی، نہ اُن کے آنچل کی چھاؤں پائی
رُتوں سے محروم جارہے ہیں! عجب نصیبِ بلاکشاں ہے
میراجی
 

طارق شاہ

محفلین
بہت عمدہ کلام شیئر کیا ہے آپ نے طارق شاہ بھائی
ماشاءاللہ
بہن میری اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں، بہت خوشی ہوئی جو آپ کو بھی یہ غزل پسند آئی

اس غزل سے بہت سا کلام جو اس بحر میں ہے، یاد آ جاتا ہے، خاص طورسے

ہوا سے موتی برس رہے ہیں، فضا ترانے سنا رہی ہے
جوش صاحب (فلم آگ کا دریا)

ایک بار پھر سے تشکّر
بہت خوش رہیں
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کلام شریک محفل کیا محترم بھائی
نہ اُن کے چہرے کی دھوپ دیکھی، نہ اُن کے آنچل کی چھاؤں پائی
رُتوں سے محروم جارہے ہیں! عجب نصیبِ بلاکشاں ہے
 

طارق شاہ

محفلین
واہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کلام شریک محفل کیا محترم بھائی
نہ اُن کے چہرے کی دھوپ دیکھی، نہ اُن کے آنچل کی چھاؤں پائی
رُتوں سے محروم جارہے ہیں! عجب نصیبِ بلاکشاں ہے

نایاب بھائی
اظہار خیال اور ستائشِ انتخاب پر آپ کا ممنون ہوں
بارہا اس غزل کے مطالعہ سے عجیب کیفیت طاری ہوئی ہے
دل رنجیدہ ہوا اور آنکھیں بھر آئیں

ایک ایک شعر مفہوم و معنویت اور کیفیت کی معراج پر ہے
بہت تشکّر ایک بار پھر سے
خوش رہیں ہمیشہ
 

عباس آزر

محفلین
`*"""""ابن انشاء"""""*`
زمیں پہ سبزہ لہک رہا ہے، فلک پہ بادل دھواں دھواں ہے
مگر جو دل کے مزاج پوچھو، ہمارے دل کا عجب سماں ہے

درونِ سینہ غمِ جدائی کا داغ ہے اور کہاں کہاں ہے
اگر یہی بختِ عاشقاں ہے فغاں ہے اے دوستو فغاں ہے

خراب دل کی خراب باتیں، اداس دن بے قرار راتیں
جو درد ہے دردِ جانستاں ہے جو سوز ہے سوزِ رائیگاں ہے

میں تیری مانند وسعتِ دہر میں اکیلا سا پھر رہا ہوں
فضائے صحرا کے ابرپارے کہیں پہ منزل کا بھی نشاں ہے

نہ قافلہ چاند کا ہویدا، نہ منزلِ نورِ صبح پیدا
وہی گزرگاہِ کہکشاں ہے، وہی غبارِ ستارگاں ہے

نہ ایسے آنے کی آرزو تھی نہ ایسے جانا ہماری خُو تھی
ہمارے دل کی بھی آبرو تھی مگر وہ پہلا سا دل کہاں ہے

تم اس پہ حیراں ہو خوش خیالو، پرانے وقتوں کے نجد والو
وگرنہ ہم کو بھی کچھ گماں ہے، وگرنہ اپنی بھی داستاں ہے

نہ ان کے چہرے کی دھوپ دیکھی نہ ان کے آنچل کی چھاؤں پائی
رتوں سے محروم جا رہے ہیں، عجب نصیبِ بلا کشاں ہے

تم اپنے انشا کی راہ و منزل کو جانتے ہو پھر اس سے مطلب
وہ تنہا تنہا رواں دواں ہے کہ ہمرہِ اہلِ کارواں ہے
غزل لاجواب ہے بہت بہت شکریہ طارق شاہ صاحب
 
Top