خرم شہزاد خرم
لائبریرین
زمیں کو آسماں لکھتا سماں کو کہکشاں لکھتا
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا
سمندر سے کنارے تک کنارے کے نظارے تک
ہے جتنے غم میں ان غم کی کہی اک داستاں لکھتا
مرا ایک یار رہتا ہے سمندر کے کنارے پر
مرے بس میں اگر ہوتا تجھے راجا یہاں لکھتا
مرے بس میں نہیں ایسا مگر سب لوگ کہتے ہیں
تو شاعر بن گیا ہوتا غزل کوئی یہاں لکھتا
مجھے اب شان شوکت کا نہیں ہے شوق ہوتا تو
میں اپنے نام خرم کو یہاں لکھتا وہاں لکھتا
سر جی ایک اور غزل آپ کی اصلاح کے لیے تیار ہے شکریہ
مرے دل کی ہے مرضی میں حقیقت کو گماں لکھتا
سمندر سے کنارے تک کنارے کے نظارے تک
ہے جتنے غم میں ان غم کی کہی اک داستاں لکھتا
مرا ایک یار رہتا ہے سمندر کے کنارے پر
مرے بس میں اگر ہوتا تجھے راجا یہاں لکھتا
مرے بس میں نہیں ایسا مگر سب لوگ کہتے ہیں
تو شاعر بن گیا ہوتا غزل کوئی یہاں لکھتا
مجھے اب شان شوکت کا نہیں ہے شوق ہوتا تو
میں اپنے نام خرم کو یہاں لکھتا وہاں لکھتا
سر جی ایک اور غزل آپ کی اصلاح کے لیے تیار ہے شکریہ