امیر مینائی زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔ امیر مینائی

فاتح

لائبریرین
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے

ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے

ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے​
امیر مینائی​
از: دیوانِ امیر مینائی معروف بہ صنم خانۂ عشق​
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔ کیا خوب غزل کہی امیر مینائی نے آتش کی زمین میں۔
جی بالکل اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی کے مصرعے ضرب المثل بن چکے ہیں۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے (آتش)
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے (امیر)
 

کاشفی

محفلین
بہت خوبصورت غزل پیش کی ہے جناب نے۔۔ بہت شکریہ جناب فاتح الدین بشیر صاحب۔ جیتے رہیں۔خوش رہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت زبردست غزل ہے۔ ہر شعر ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔
بہت خوبصورت غزل پیش کی ہے جناب نے۔۔ بہت شکریہ جناب فاتح الدین بشیر صاحب۔ جیتے رہیں۔خوش رہیں۔
بہت شکریہ فاتح صاحب، بہت خوب شیئرنگ کی آپ نے
شمشاد صاحب، کاشفی صاحب اور راجہ صاحب! آپ تمام احباب کی پذیرائی پر ممنون ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ فاتح، شکریہ ادا نہیں کر رہا، بس یہ کہہ رہا ہوں کہ مشہور زمانہ مصرع کی پوری غزل پوسٹ کر دی، اور وارث، تم سے مجھے معلوم ہوا کہ اس زمیں میں دو غزلیں ہیں۔ ایک یہ امیر مینائی کی ہے، میں اسے آتش کی غزل کا ہی کوئی شعر سمجھ رہا تھا جس میں بدلتا ہے رنگ آسماں۔۔۔ والا شعر ہے۔
 

سلفی کال

محفلین
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے
واہ، کیا بات ہے ۔
ویسے ایک بات اہل علم سے پوچھنی ہے
اس غزل کے مطلع کا شعر
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں سن رکھا تھا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیس
 

سلفی کال

محفلین
ایک بات اہل علم سے پوچھنی ہے
اس غزل کے مطلع کا شعر
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں سن رکھا تھا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
 
لاجواب انتخاب
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
یہ شعر سن رکھا تھا
آپ کے طفیل سے پوری غزل بھی پڑھ لی
سلامت رہیں
 

Aqibimtiaz786

محفلین
کیا کہنے ہیں امیر مینائی جی کے چُن کر شیئر کی ہے پوئٹری فاتح بھائی آپ نے میرے پسندیدہ شاعر ہیں امیر مینائی شکریہ شیئر کرنے کا، مجھے تو بہت مزہ آیا پڑھ کر شاعری۔۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
ایک بات اہل علم سے پوچھنی ہے
اس غزل کے مطلع کا شعر
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں سن رکھا تھا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

آتش کی غزل بھی یہاں شامل کر دیجیے
www.urduweb.org/mehfil/threads/12366
خواجہ حیدر علی آتش کی ایک خوبصورت اور نمائندہ غزل پیشِ خدمت ہے۔


دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے


زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے


تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے


بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے


نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے


نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے


غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے


تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے


کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
 

امین شارق

محفلین
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے

ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے

ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے

امیر مینائی
از: دیوانِ امیر مینائی معروف بہ صنم خانۂ عشق​
لاجواب اور سدا بہار غزل۔
بہت شکریہ فاتح بھائی ۔
 
Top