زندگی اتنی گم صم کیوں ہے؟

نیلم

محفلین
زندگی اتنی گم صم کیوں ہے؟
کبھی کبھی انسان اپنی زات سے ہی تنگ آجائے تو اسے اپنا وجود ہی کائنات پر بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں کوئی خوشی، کوئی دکھ متاثر نہیں کرتا۔ آنکھیں خشک سیلاب بن کر ویران ہو جاتی ہیں،سوچ کے دریچوں پر جیسے قفل پڑ جاتے ہیں۔ دل کسی پرانے کھنڈر کی طرح ہو جاتا ہے۔ وقت گویا صحرا کی تپتی ریت پر لا کھڑا کرتا ہے۔

انسان کا حال اس ضدی بچے کی مانند ہو جاتا ہے جو پرانے کھلونوں سے کسی طور نہیں بہلتا بلکہ ہراس شے کے حصول پر بضد رہتا ہے جو اس کی پہنچ میں نہیں ہوتی۔۔۔۔۔

اور ایسے میں۔۔۔۔ ہم جیسے لوگ!گئی باتوں کو دفن کر کے آدھی رات کی خاموشی سنا کرتے ہیں۔ لب خاموش رہتے ہیں ،آنکھیں اجاڑ ہیں مگر دل کا بوجھ کا کتبہ ہے۔
اور ان سب کے بیچ۔۔۔۔ ایک نیا دکھ، نئے دن کا آغاز، زندگی کس موڑ پر لا کھڑا کرے؟ کوئی خبر نہیں ۔

جی چاہتا ہے رات کے پچھلے پہر ویران سڑکوں پر زندگی کو ڈھونڈنے نکلوں، آسمان والے سے دل کی بات کہوں۔ اپنے خدا سے پوچھوں کہ زندگی اتنی گم صم کیوں ہے؟؟؟ کہیں اپنا پتہ کیوں نہیں دیتی؟؟؟؟
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
زندگی کے بدلتے روپ ہیں سب۔۔۔کبھی آنسو۔۔کبھی نغمہ۔۔۔کبھی شبنم اور کبھی جلن۔۔۔۔
تو پھر زندگی گم صم ہوجائے تو اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔بار بار آواز دینی پڑتی ہے۔۔۔
اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنی پڑتی ہیں۔۔
 

شیزان

لائبریرین
خشوع و خضوع سے نماز پڑھی جائے تو ایسے اوٹ پٹانگ خیالات آتے ہی نہیں
اور زندگی گم صم ہونے کی بجائے نئے نئے رنگ لئے نمودار ہوتی ہے
شکوے سے شکر تک کا سفر۔۔۔ وہی معاملہ ہے۔۔۔:)
 

arifkarim

معطل
خشوع و خضوع سے نماز پڑھی جائے تو ایسے اوٹ پٹانگ خیالات آتے ہی نہیں
اور زندگی گم صم ہونے کی بجائے نئے نئے رنگ لئے نمودار ہوتی ہے
شکوے سے شکر تک کا سفر۔۔۔ وہی معاملہ ہے۔۔۔ :)
خیالات کا آنا جانا انسان کی بس کی بات نہیں۔
 

نیلم

محفلین
زندگی کے بدلتے روپ ہیں سب۔۔۔ کبھی آنسو۔۔کبھی نغمہ۔۔۔ کبھی شبنم اور کبھی جلن۔۔۔ ۔
تو پھر زندگی گم صم ہوجائے تو اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔بار بار آواز دینی پڑتی ہے۔۔۔
اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنی پڑتی ہیں۔۔
بالکل :)
 

نیلم

محفلین
خشوع و خضوع سے نماز پڑھی جائے تو ایسے اوٹ پٹانگ خیالات آتے ہی نہیں
اور زندگی گم صم ہونے کی بجائے نئے نئے رنگ لئے نمودار ہوتی ہے
شکوے سے شکر تک کا سفر۔۔۔ وہی معاملہ ہے۔۔۔ :)
نماز میں بھی تو خشوع وخضوع نہیں ملتا،،بس ہماری اپنی ہی کمزوریاں ہیں ساری :)
بس شکوہ سے اللہ بچائے اور شکر کی توفیق دے۔آمین :)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب لکھا نیلم آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی گم صم کہاں ۔۔۔۔۔۔۔؟
زندگی تو ہر لمحہ متحرک اور پر شور ہوتی ہے ۔ یہ اپنے شور میں سب کو بہا لے جاتی ہے ۔ جبھی تو انسان کو اپنا وجود بھاری لگنے لگتا ہے ۔ انسان جب تک اس زندگی کی تیز رفتاری کا اپنے حوصلے و ہمت سے مقابلہ نہ کرے ۔ اسے اپنا وجود اپنی ذات سے تنگی محسوس ہوتی ہے ۔ ہردم رواں دواں جواں ہے زندگی ۔ سو یہ اپنے بسر کرنے والوں کو آگے ہی آگے بڑھنے پر مہمیز کرتی ہے ۔ اور جو اس زندگی کی جنگ سے تھک جاتے ہیں ۔ ان میں خواہش و امید کم ہونے لگتی ہے ۔ ان کے لیئے خوشی و غم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ یہ زندگی سے نا امید ہونے لگتے ہیں
رات گئے تنہائی کے عالم میں اپنے من مندر میں اترنا اور بیتی ہوئی " صداؤں " کو سننا ۔ خوشیوں بھری یاد ہو کہ غم سے لبریز ۔ بہر صورت اس کیفیت کا طاری ہونا بھی زندگی کے " گم صم " ہونے کی نفی کرتا ہے ۔ کتنا شور اٹھتا ہے پچھلے پہر کہ انسان اپنا وجود کسی تیز طوفان میں گھرا محسوس کرتا ہے ۔
اس طوفان میں اپنی ہستی کو سکون دینے کے لیئے سچے سمیع العلیم نے فرمایا ہے کہ
"قم اللیل الا قلیلا "
" الا بذکر الله تطمئن القلوب "
(کچھ لفظ سوجھے پڑھ کر ۔ سو لکھ ڈالے ۔)
 
Top