محمداحمد
لائبریرین
غزل
تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی
خون تاروں کا جو ہو گا تو شفق پھوٹے گی
سُرخیء خُوں سے سحر اور نکھر جائے گی
تھک کے بیٹھا ہوں میں سایوں کے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ ہر اک راہ کدھر جائے گی
یہ الگ بات کہ دن میرے مقدّر میں نہ ہو
رات پھر رات ہے آخر کو گزر جائے گی
میرا سرمایہ تری یاد ہے اے جانِ غزل
تجھ کو بھولا تو مری شاعری مر جائے گی
چشمِ برہم سے میں خائف تو نہیں ہوں آذر
یہ وہ ندی ہے جو چڑھتے ہی اُتر جائے گی
اعزاز احمد آذر
تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی
خون تاروں کا جو ہو گا تو شفق پھوٹے گی
سُرخیء خُوں سے سحر اور نکھر جائے گی
تھک کے بیٹھا ہوں میں سایوں کے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ ہر اک راہ کدھر جائے گی
یہ الگ بات کہ دن میرے مقدّر میں نہ ہو
رات پھر رات ہے آخر کو گزر جائے گی
میرا سرمایہ تری یاد ہے اے جانِ غزل
تجھ کو بھولا تو مری شاعری مر جائے گی
چشمِ برہم سے میں خائف تو نہیں ہوں آذر
یہ وہ ندی ہے جو چڑھتے ہی اُتر جائے گی
اعزاز احمد آذر