یہ نظم میرے بھی پسندیدہ کلام میں شامل ہے۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ نظم پہلے پوسٹ کی جا چکی ہوگی۔ پھر بھی دوبارہ پڑھنے میں کیا حرج ہے؟
زندگی سے ڈرتے ہو؟ زندگی تو تم بھی ہو
زندگی تو ہم بھی ہیں
آدمی سے ڈرتے ہو؟ آدمی تو تم بھی ہو
آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آھن سے آدمی
ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ ، اس
سے تم نہیں ڈرتے!
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اُس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں، دور نارسائی کے
بے ریا خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزومندی
یہ شب ِ زباں بندی، ہے وہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
شہر کی فصیلوں پر، دیو کا جو سایہ تھا، پاک
ہو گیا آخر
اژدھام ِ انساں سے فرد کی نوا آئی، ذات کی
صدا آئی
راہ ِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے، اک نیا
جنوں لپکے
تم ابھی سے ڈرتے ہو!
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
تم ابھی سے ڈرتے ہو!
( ن ۔ م ۔ راشد کے کلام سے)