سلیم احمد زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیم احمد

x boy

محفلین
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بُری لگتی ہے
خوب کہا
 

ظفری

لائبریرین
گھر میں کچھ کم ہے، یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ
یہ بھی کھُلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے

بہت خوب ۔۔۔۔
سلیم احمد نے بہت کم لکھا ہے مگر جو بھی لکھا ہے بہت ہی منفرد لکھا ہے ۔ ان کا ایک شعر برسوں بعد بھی یاد ہے ۔

ہم سمجھتے تھے ہمارے بام و در دُھل جائیں گے
بارشیں آئیں تو کائی جم گئی دیوا ر پر

سلیم احمد کی اس خوبصورت غزل کو یہاں شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔
 
گھر میں کچھ کم ہے، یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ
یہ بھی کھُلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے

بہت خوب ۔۔۔ ۔
سلیم احمد نے بہت کم لکھا ہے مگر جو بھی لکھا ہے بہت ہی منفرد لکھا ہے ۔ ان کا ایک شعر برسوں بعد بھی یاد ہے ۔

ہم سمجھتے تھے ہمارے بام و در دُھل جائیں گے
بارشیں آئیں تو کائی جم گئی دیوا ر پر

سلیم احمد کی اس خوبصورت غزل کو یہاں شئیر کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔
غزل کی پسندیدگی اور تبصرے کے لیے ممنون ہوں ظفری صاحب ۔
اور سلیم احمد کے خوبصورت شعرکو شیئر کرنے کا بھی شکریہ :)
سلامت رہیں ۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے

روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہمسفری لگتی ہے

آنکھ مانوس تماشہ نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے

گھاس میں جذب ہوئے ہونگے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے

سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے

میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے

بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں
آج ہر آنکھ کوئی ابرِ تہی لگتی ہے

شور طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم
لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے

گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیم
یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے


 
Top