زندگی کی اساس کچھ بھی نہیں ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی کی اساس کچھ بھی نہیں
یہ جو ہے آس پاس کچھ بھی نہیں

پھول مرجھا گئے محبت کے
اب کسی شے کی باس کچھ بھی نہیں

سو گئی ہے کہ مر گئی قُمری
نم زدہ آج گھاس کچھ بھی نہیں

کبھی اہلِ جنوں بنے سنورے
کبھی تن پر لباس کچھ بھی نہیں

ہر یقین و گماں ہے لاحاصل
واہمہ ہے قیاس کچھ بھی نہیں

پھروں روٹھا ہوا ہی کعبے میں
اب سپاس ، التماس کچھ بھی نہیں

(رفیق اظہر)
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
سخنور جی
بہت خوب
شکریہ
ہر یقین و گماں ہے لاحاصل
واہمہ ہے قیاس کچھ بھی نہیں

پھروں روٹھا ہوا ہی کعبے میں
اب سپاس ، التماس کچھ بھی نہیں

نایاب
 
Top