عمران شناور
محفلین
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جب مسرت قریب آئی ہے
غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے
غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے
حسن نے جب شکست کھائی ہے
عشق کی جان پر بن آئی ہے
عشق کی جان پر بن آئی ہے
عشق کو زعمِ پارسائی ہے
حسنِ کافر! تری دہائی ہے
حسنِ کافر! تری دہائی ہے
ہائے وہ سبزہء چمن کہ جسے
سایہء گل میں نیند آئی ہے
سایہء گل میں نیند آئی ہے
عشق ہے اس مقام پر کہ جہاں
زندگی نے شکست کھائی ہے
زندگی نے شکست کھائی ہے
خاکِ منزل کو منہ سے ملتا ہوں
یادگارِ شکستہ پائی ہے
یادگارِ شکستہ پائی ہے
اس نے اپنا بنا کے چھوڑدیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے
ہجر سے شاد‘ وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
(جگر مراد آبادی)