مخدوم احمد ذیشان ہاشمی
محفلین
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
زندگی وہی ہے جو زندہ دلی سے عبارت ہو، دل نہ رہے تو انسان کے لئے دنیا کی ہر نعمت کا مزہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہ جو ناصر نے کہا تھا کہ اپنا دل اداس ہو تو لگتا ہے کہ شہر سائیں سائیں کررہا ہے۔
اور پھر بقولِ اقبال :
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا ، جب دل ہی بجھ گیا ہو
اسی لئے بہت ضروری ہے کہ دل پر خاص توجہ دی جائے کہ دل بجھ نہ جائے ، اس کی رضامندی کا خیال رکھا جائے، دل کی آراستگی اور مضبوطی کا سامان کیا جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے دل کو طاقت ملِے۔دل کی تقویت اور ٹھہراؤ انسان کو زندگی کی کشاکش میں مدد دیتی ہے۔ جب انسان کا دل مطمئن ہو تو اُس کو ہر مشکل چھوٹی لگتی ہے اور وہ بڑے سے بڑی رکاوٹ کو عبور کرجاتا ہے۔
زندہ دل آدمی اپنے اندر طمانینت، سعادت اور راحت محسوس کرتا ہے۔ زندہ دلی انسان کو بھلائی اور طاعتوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ اور کئی طرح کی نفسیاتی آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ کلفت اور مشقت محسوس کئے بغیر، اعمالِ خیر کا کا سر انجام دینا آسان بنا دیتی ہے ۔ مثبت سوچ جنم لیتی ہے۔
زندہ دلی یا دل کی زندگی ، اِس چیز میں ہے کہ دل اپنے خالق کا تابع ہو، نیکی کی طرف راغب ہو اور اپنے رب کے ذکر سے توانائی حاصل کرتا ہو. . .
اللہ عزوّجل فرماتا ہے، سورۃ الرعد میں :
الذین آمنوا و تطمئنُ قلوبھم بذکراللہ ، الاٰ بذکرِ اللہِ تطمئنُ القلوب ٭
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے، اُن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمئنان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دِلوں کو اطمئنان ہوتا ہے
” مگر ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرکے بھی دل بےچین اور مضطرب رہتا ہے۔ وہ صبح شام تسبیحات پڑھتے ہیں مگر پھر بھی زندگی حزن و ملال اور بےچینی و انتشار میں گزرتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اطمئنان سے مراد سکون کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کسی نشے کو اختیار کرنے کے بعد انسان پر طاری ہوجاتی ہے۔اور جس کے بعد انسان دنیا و ما فیہا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ بلکہ یہاں اطمئنان سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان کا دل ایک نکتے پر یقین کی حالت میں سکون حاصل کرتا ہے۔وہ سکون جو یقین سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس میں انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے ، جس کو اُس نے اپنا رب اور معبود مانا ہے، وہی درحقیقت خالق اور مالک ہے۔ اُس رب کے ہاتھ میں کُل کائنات کی بادشاہی ہے ، اور جس نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے دیا ، اللہ تعالیٰ اُسے کبھی رُسوا اور محروم نہیں کرے گا۔
تاہم یہ یقین اللہ کے جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے وہ محض تسبیح پر انگلیاں پھیرنے کا عمل نہیں بلکہ اس کی یاد میں جینے کا نام ہے۔ یہ محض کچھ اذکار کو زبان سے ادا کرنے کا عمل نہیں، بلکہ اس کے ذکر سے منہ میں شیرینی گھُل جانے کا نام ہے۔ یہ صرف اُس کے نام کی مالا جپنے کا نام نہیں ، بلکہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ سمجھنے کی کیفیت کا نام ہے۔
قرآن نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اطمئنانِ قلب کی وہ کیفیت جس میں انسان کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ، اللہ کے دوستوں کو عطا کی جاتی ہے۔ فرمایا :
سُن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ،
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔
ان کے لئے خوشخبری ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی
اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔
سورۃ یونس – آیت62،63، 64۔۔۔۔
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
زندگی وہی ہے جو زندہ دلی سے عبارت ہو، دل نہ رہے تو انسان کے لئے دنیا کی ہر نعمت کا مزہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہ جو ناصر نے کہا تھا کہ اپنا دل اداس ہو تو لگتا ہے کہ شہر سائیں سائیں کررہا ہے۔
اور پھر بقولِ اقبال :
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا ، جب دل ہی بجھ گیا ہو
اسی لئے بہت ضروری ہے کہ دل پر خاص توجہ دی جائے کہ دل بجھ نہ جائے ، اس کی رضامندی کا خیال رکھا جائے، دل کی آراستگی اور مضبوطی کا سامان کیا جائے اور ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے دل کو طاقت ملِے۔دل کی تقویت اور ٹھہراؤ انسان کو زندگی کی کشاکش میں مدد دیتی ہے۔ جب انسان کا دل مطمئن ہو تو اُس کو ہر مشکل چھوٹی لگتی ہے اور وہ بڑے سے بڑی رکاوٹ کو عبور کرجاتا ہے۔
زندہ دل آدمی اپنے اندر طمانینت، سعادت اور راحت محسوس کرتا ہے۔ زندہ دلی انسان کو بھلائی اور طاعتوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ اور کئی طرح کی نفسیاتی آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ کلفت اور مشقت محسوس کئے بغیر، اعمالِ خیر کا کا سر انجام دینا آسان بنا دیتی ہے ۔ مثبت سوچ جنم لیتی ہے۔
زندہ دلی یا دل کی زندگی ، اِس چیز میں ہے کہ دل اپنے خالق کا تابع ہو، نیکی کی طرف راغب ہو اور اپنے رب کے ذکر سے توانائی حاصل کرتا ہو. . .
اللہ عزوّجل فرماتا ہے، سورۃ الرعد میں :
الذین آمنوا و تطمئنُ قلوبھم بذکراللہ ، الاٰ بذکرِ اللہِ تطمئنُ القلوب ٭
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے، اُن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمئنان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو، اللہ کے ذکر سے ہی دِلوں کو اطمئنان ہوتا ہے
” مگر ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرکے بھی دل بےچین اور مضطرب رہتا ہے۔ وہ صبح شام تسبیحات پڑھتے ہیں مگر پھر بھی زندگی حزن و ملال اور بےچینی و انتشار میں گزرتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اطمئنان سے مراد سکون کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کسی نشے کو اختیار کرنے کے بعد انسان پر طاری ہوجاتی ہے۔اور جس کے بعد انسان دنیا و ما فیہا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ بلکہ یہاں اطمئنان سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان کا دل ایک نکتے پر یقین کی حالت میں سکون حاصل کرتا ہے۔وہ سکون جو یقین سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس میں انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے ، جس کو اُس نے اپنا رب اور معبود مانا ہے، وہی درحقیقت خالق اور مالک ہے۔ اُس رب کے ہاتھ میں کُل کائنات کی بادشاہی ہے ، اور جس نے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے دیا ، اللہ تعالیٰ اُسے کبھی رُسوا اور محروم نہیں کرے گا۔
تاہم یہ یقین اللہ کے جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے وہ محض تسبیح پر انگلیاں پھیرنے کا عمل نہیں بلکہ اس کی یاد میں جینے کا نام ہے۔ یہ محض کچھ اذکار کو زبان سے ادا کرنے کا عمل نہیں، بلکہ اس کے ذکر سے منہ میں شیرینی گھُل جانے کا نام ہے۔ یہ صرف اُس کے نام کی مالا جپنے کا نام نہیں ، بلکہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ سمجھنے کی کیفیت کا نام ہے۔
قرآن نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اطمئنانِ قلب کی وہ کیفیت جس میں انسان کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ، اللہ کے دوستوں کو عطا کی جاتی ہے۔ فرمایا :
سُن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ،
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔
ان کے لئے خوشخبری ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی
اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔
سورۃ یونس – آیت62،63، 64۔۔۔۔