زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے

جاسم محمد

محفلین
زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے
03/04/2020 ڈاکٹر شہناز شورو

اپریل کے ابھرتے سورج کی کرنیں گڑھی خدا بخش کے درودیوار کومذید اداس کر دیتی ہیں۔ آج کے دن پاکستان کے شہروں، گوٹھوں اور کٹڑیوں میں رہنے والے غمزدہ افراد کو یوں لگتا ہے گویا ان کے آنگن میں سینٹرل جیل راولپنڈی سے آئی وہ میت رکھی ہے جسے دیکھ کر انہیں اپنے بے یار و مددگار ہونے کا دکھ کھا گیا تھا۔ وہ اس آواز کو یاد کرتے ہیں جس نے کہا تھا کہ میں ہراس غریب کے گھر میں رہتا ہوں جس کی چھت بارش میں ٹپکتی ہے۔

یہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آواز تھی۔ جسے قاتل نے 4 اپریل 1979 کی بدبخت رات کے اندھیرے میں باوردی پہرے داروں کی نگرانی میں دفن کروانے یہ سوچ کر بھیجا تھا کہ اس پہر لاش پر رونے والا کوئی نہ ہوگا۔ قاتل کو معلوم نہ تھا کہ اس نے گونگی زمین میں وہ زبان رکھ دی ہے، جسے موت کے بعد اور اونچا بولنا تھا۔

وہ جس نے اس کو لحد میں رکھ کے، لحد کے منہ پہ چٹان رکھ دی
وہ یاد رکھے کہ اس نے گونگی زمین کے منہ میں زبان رکھ دی

عشرے گزر جانے کے باوجود اب تک اس اندھیری صبح کا ماتم جاری ہے۔ آج بھی 4 اپریل کی قیامت کو یاد کر کے اہل دل کا سینہ غم کی شدت سے پھٹا جاتا ہے اور آنکھ سے بہتے آنسوتھم کر نہیں دیتے کہ آج انہوں نے اس انسان کو ہمیشہ کے لئے کھو دیا تھا جس کا دل ان کے لئے دھڑکتا تھا۔ محبت کا آسمان بھٹو غریب کسانوں، مزدوروں اور محنت کش طبقے کا ہیرو بن کر سامنے آیا، بے آوازوں کی صدا بن کر ابھرا اور قافلہٴ جمہور کا میر کارواں بن کر چلا۔ اپنے ملک کے مظلوم و محکوم عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم لئے ایک ذہین وفطین سیاستدان بے رحم سامراجی قوتوں کی بھیانک منصوبہ بندی کا شکار ہو گیا تھا۔

بیسویں صدی کا سوشل ڈیموکریٹ ذوالفقارعلی بھٹو صرف سیاستدان ہوتا تو یوں اپنے پہرے داروں کے ہاتھوں نہ مارا جاتا۔ اوریانا فلاچی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھٹو نے کہا تھا کہ ”سیاست کرنے کو آدمی کے سینے میں شاعری کی لگن ضروری ہے۔ “ وہ شاعرتھا، باغی اورانقلابی تھا۔ اور سچے انقلابی مکاری اور دھوکے بازی کی روح سے واقف نہیں ہوتے، وہ دما دم مست قلندر کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے وجود کے گرد ایک طلسم ہوتا ہے وہی جادو وہ ہالہ جو بھٹو کے گرد تھا کہ ساری خدائی دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔ ایک وہ جو اس کی موت کی خبر سن کر خود کو مار گئے تھے اور دوسرے وہ جو مٹھائیاں تقسیم کرتے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے جب دو لخت پاکستان کا اقتدار سنبھالا، پاکستان کا 13 ہزار مربع میل رقبہ اور 92 ہزار فوجی ہندوستان کے قبضے میں تھے۔ انہوں نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی اور مذاکرات کے ذریعے نہ صرف قید فوجیوں کو رہا کرایا بلکہ پاکستان کا 13 ہزار مربع میل رقبہ بھی بھارت کے قبضے سے واگزار کروایا۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈا پر لے کر آئے۔ چین سے مضبوط اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامی کانفرنس منعقد کروا کر تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو متحد کیا۔

اسلامی ممالک میں غریب مزدوروں کو ملازمتوں کے اجازت نامے جاری کروائے۔ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت دینے کے لئے متفقہ آئین بنایا۔ شناختی کارڈ کا اجراء کیا۔ بے شمار ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا اور پاکستان میں عوامی شعور کی بیداری کے لئے سوشلسٹ جمہوریت کے ایک سنہری دور کا آغاز کیا۔ بھٹو کے جرائم کی کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔ مگر پاکستان کو پڑوسیوں کی جارحیت سے محفوظ رکھنے کے لئے چین سے تعلقات بہتر کرنا، اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور انہیں تیل کی طاقت کا احساس دلانا، ایشیا کو بین الاقوامی سازشوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا، پاکستان کے مظلوم عوام کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد کرنا، ایک انقلابی منشور کے ذریعے ملک کی قسمت بدلنے کے خواب دیکھنا اور ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ نہ کرنا اس کے سنگین ترین جرائم ہیں۔ جس کی پاداش میں امریکہ نے پاکستانی فوج کے آرمی چیف کے ذریعہ مارشل لاء لگوا کر اسے قتل کے ایک بھونڈے کیس میں ملوث کر کے پھانسی دلوا دی۔

ذوالفقارعلی بھٹو پر تنقید کرنے والے اجرتی کالم نگار، جب اسے اپنے متعین کردہ تصوراتی سیاسسی پیمانے میں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مایوس ہوتے ہیں۔ آپ اگر بھٹو کا موازنہ سیاسی ضرورت کے تحت بنائے گئے سیاسی مہروں کے ساتھ کریں گے تو یہ نا انصافی ہوگی۔ اس دنیا کے وہ تمام انقلابی، فلسفی، دانا اور حق گو جنہوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرجراٴت اظہار کا عملی مظاہرہ کیا، بھٹو ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ آپ ذوالفقارعلی بھٹو کو سقراط اور حُسِین بن علی بن ابی‌طالب کی جراٴت انکار کی کسوٹی پر پر کھئے جس میں وہ سر بلند و سرفراز ہے۔

کیا حُسِین بن علی کے لئے یزید کی بیعت کرنا اور اپنا خاندان بچا کر مراعات حاصل کرنا مشکل تھا؟ کیا سقراط کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ ہیملاک پینے کے بجائے، بن باس لے کر کچھ سال اور جی لیتا؟ لیکن اس نے صدیوں کی زندگی کا چناوٴ کیا۔ بالکل ایسے ہی بھٹو کے لیے بھی زندہ رہنے کے راستے کھلے تھے۔ مگر پھر آنے والے زمانوں میں معرکہٴ حق و باطل میں ظالم اور مظلوم، حق و باطل اور سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز کے ذکر پر اس کا نام بھی نہ ہوتا داستانوں میں۔

وہ بھی معافی نامہ لکھ کر اپنا ملک چھوڑ کر کسی ملک میں پناہ لینے چلا جاتا۔ لیکن اس نے کال کوٹھڑی سے بھی یہ پیغام بھیجا کہ میں اس مٹی کی پیدائش ہوں اور اسی مٹی میں دفن ہونا پسند کروں گا اور یہ کہ اگر مجھے پاکستان کے خاطر اپنے بچوں کی قربانی دینا پڑی تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کروں۔ آپ یہ دیکھیں کہ اس نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ آپ اس بات پر غور کریں کہ اس نے اپنے قاتل سے رحم کی اپیل نہ کی۔ آپ اس کے عزم و حوصلے کی داد دیں کہ وہ کس شان سے مقتل کو گیا اور داستان وفا رقم کی۔

اگر آپ بھٹو کی عظمت، اس کی سچائی، اس کی عوام سے بے لوث محبت اور پاکستان کے لئے اس کی عظیم خدمات اوراس ملک کی خاطراپنی اولاد تک کوقربان کرنے کے بے مثال جذ بے اور غیر معمولی قربانی کومعمولی گردانتے ہوئے اس کی انسانی خامیوں کو تلاش کر کے اس کی عظمت کو کم کرنے کی کوشش کریں گے تب بھی آپ کی یہ محنت عوام کو اپنے محبوب لیڈر سے گمراہ کرنے کی ایک بھدی کوشش سے زیادہ کچھ نہ ہو گی۔ اورآپ کی اس کوشش میں اگر کچھ لوگ آپ کا ساتھ دیں گے تب بھی آپ کی کاوشیں جنرل ضیاء کی ہمنوائی سے بڑھ کر کچھ نہ ہوں گی جس نے بدنام زمانہ جرنیلوں اور میڈیا مافیا کے ذریعے بھٹو صاحب کے خلاف قرطاسِ ابیض تیار کیا مگر اپنی تمام تر طاقت اور بھٹو دشمنی کی انتہا کے باوجود بھٹو پرکرپشن کا داغ نہ لگا سکے۔

بھٹو کی سیاسی اور سوشلسٹ جدوجہد اور ثابت قدمی کا مطالعہ کرنے کے بعد اس سے محبت نہیں بلکہ عشق ہو جاتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ راستہ شہرِ مقتل کو جاتا ہے، ملا ملٹری الائنس اور میڈیا مافیا اس کے خون کے پیاسے ہیں۔ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے وڈیرے اور جاگیردار سیاستدان اسے زندہ دیکھنا نہیں چاہتے، جس نے گھٹنوں پہ کاغذ رکھ کر اپنی زندگی کے آخری صفحات لکھے تھے کہ اسے معلوم تھا کہ اسے کل کی صبح دیکھنی نصیب نہ ہوگی مگر ایسے عالم میں بھی اسے پختہ یقین تھا کہ وہ تاریخ اور دلوں میں زندہ رہے گا۔

اس نے اپنے تمام تر کارنامے ایک طرف رکھے اور کہا کہ میں نے اس ملک کے گونگے عوام کو زبان دی، انہیں سوچنا سکھایا، انہیں ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنا سکھایا اور یہ کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس نہتی عوام نے جیلوں میں، دارورسن پر، ٹکٹکیوں پر، شہروں اور دیہاتوں میں عشقِ بھٹو کی تاریخ رقم کی اوراسے قائد عوام بنا دیا۔ فوجی ڈکٹیٹر کی بد ترین آمریت کے شکار عوام سولی چڑھے، کوڑے کھائے، تکلیفیں اور ایذائیں سہیں، خود کو نذر آتش کیا مگر ہر ظلم کا جواب جئے بھٹو کے نعرے سے دیا۔

یہ حقیقت ہے کہ بھٹوآج بھی قبر سے راج کر رہا ہے۔ وہ تاریخ انسانی کے ان چند یادگار کرداروں میں سے ایک ہے موت جن کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ جسمانی موت کے اکتالیس سال بعد، آج بھی وہ پاکستان کے غریب عوام کے لئے امید، حوصلے اورجراٴت کا استعارہ ہے۔ ان کے گھروں کی پلستر ادھڑی دیواروں پر دمکتی پیشانی اور چمکتی آنکھوں والے بھٹو کی تصویر محبت اور وفا کی علامت بن کر نقش ہے۔ عوام اور تاریخ کا ہیرو بھٹو ہے جبکہ ضیا اور اس کے حواری تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہوئے۔ حسن مجتبیٰ نے جیالوں کوبہترواں فرقہ قرار دیا ہے جن کے خون میں بھٹو کا عشق رقصاں ہے۔ جن کے دلوں میں محبتوں کا ولی، بھٹو زندہ ہے۔ اسی لئے ہر سال جب بھی 4 اپریل کی شام غریباں نم آنکھوں اوراداس آنگنوں میں اترتی ہے، عوام کا سمندر بول اٹھتا ہے،

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

سید رافع

محفلین
وہ بھی معافی نامہ لکھ کر اپنا ملک چھوڑ کر کسی ملک میں پناہ لینے چلا جاتا۔
یہ آپشن گیم کی حد میں رہنے والوں کو ملتا ہے۔ جو اپنا گیم کھیل رہے ہوں اسکے تمام رولز انکو خود وضع کرنے پڑتے ہیں۔

بھٹو پرکرپشن کا داغ نہ لگا سکے۔
اس ضمن میں بنگلہ دیش بن جانا ہی کافی کرپشن کا کام تھا۔
 
Top