جون ایلیا زوالِ بغداد - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
وہ سرزمین ہار گئی جس میں سب سے پہلی بار گیہوں بویا گیا تھا۔ وہ زمین ہار گئی جس میں پہیا ایجاد ہوا تھا۔ وہ زمین ہار گئی جس نے دنیا کو دانش سکھائی تھی اور پیغمبروں کو پرورش کیا تھا۔ وہ زمین ہار گئی جس نے انسانوں کو اپنی دانش پر فخر کرنا سکھایا تھا۔ وہ زمین ہار گئی جس نے دنیا کو پہلی بار قانون کے ضابطے تعلیم کیے تھے۔ ہاں، حمورابی ہار گیا۔ تو صورتِ حال یہ ہے کہ عراق ہار گیا۔ انسانوں کی بہترین ذہانتوں، کہانتوں اور خطابتوں کی پیش گاہ ہار گئی۔ جون ایلیا تم ہار گئے، تمہارا نسب نامہ ہار گیا۔ تمہارا ماضی اور ماضی کا ماضی ہار گیا۔ بابل ہار گیا، بغداد ہار گیا۔

ایتھنز کے بعد تاریخ نے بغداد سے زیادہ دانش افروز شہر پیدا نہیں کیا۔ اگر تاریخ پڑھتے ہوئے بغداد کو چھوڑ کر آگے بڑھا جائے تو مہذب انسانیت کا ذہن بیسویں صدی سے گزرنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔

جب ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ کیا تھا تو دنیا کے عظیم ترین شاعر سعدی نے اس تباہی کا مرثیہ کہا تھا:

آسماں را حق بوَد گر خوں ببارد بر زمیں​
بر زوالِ ملکِ مستعصم امیر المومنیں​
اے محمد گر قیامت سر بروں آری ز خاک​
سر بروں آرَد قیامت درمیانِ خلق بیں​
یعنی آسمان کو چاہیے کہ امیر المومنین مستعصم باللہ کی حکومت کے زوال پر خون کے آنسو برسائے۔ اے محمد (ص)! اگر آپ قیامت میں خاک سے نمودار ہوں گے تو دیکھیے لوگوں کے درمیاں قیامت برپا ہو گئی ہے۔​
اے میرے ہم نشینِ شام! قیامت برپا ہو گئی ہے۔ بغداد اپنی بدترین سرنوشت سے دوچار ہوا ہے۔ تمہاری تہذیب کی سب سے بڑی علامت لہولہان ہو گئی ہے۔ شہروں کا وہ شہر تباہ و برباد ہو گیا ہے جس کے چوراہوں پر تاریخ کی سب سے اعلیٰ دانش، سب سے اعلیٰ بینش کلام کیا کرتی تھی۔ یہ سب کچھ ہو گیا ہے اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ بغداد تباہ و برباد ہو گیا اور کسی سعدی نے کوئی مرثیہ نہیں کہا۔ اس لیے کہ اِس زمانے کا بغداد سعدی کے زمانے کا بغداد نہیں تھا۔ اُس وقت بغداد کے پیچھے ایک درخشاں تاریخ تھی مگر اِس بار بغداد کے پیچھے کوئی تاریخ نہیں تھی۔​
سن لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جا سکتی اور اگر جنگ کی جائے گی تو شرم ناک ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے۔ جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی۔ حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی۔ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا۔ تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معائدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔ عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔​
کیا یہاں کبھی یہ سوچا گیا کہ اسلحہ درآمد کرنے والے، اسلحہ برآمد کرنے والوں سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر مقابلہ کر بھی گزریں تو کیسے فتح پا سکتے ہیں؟​
کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔​
میں اپنے آپ سے اور اپنے گرد و پیش سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آخر ہم نے سوچا کیا ہے، ہم تاریخ سے آخر کس طرح کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں؟​
حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی معاملہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ہم نے تاریخ سے کبھی کوئی سلیقے کا معاملہ نہیں کیا۔ تاریخ قوموں کی کوئی زر خرید لونڈی نہیں ہے کہ اس سے جو کچھ چاہا وہ منوا لیا جائے۔​
تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ علم، دانش اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ علم کے سامنے ذلیل ہونا جہالت کا مقدر ہے، جمہوریت کے مقابلے میں شکست کھانا آمریت کا مقسوم ہے اور کوئی قوم اپنے تاریخی مقدر اور مقسوم سے سرتابی نہیں کر سکتی۔ جو قوم علم، دانش اور جمہوریت کے ساتھ زندہ رہنے کا شعور نہیں رکھتی، اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ علم، دانش اور جمہوریت یہی قوموں کے لیے ایک نسخۂ کیمیا ہے، بس!​
(سسپنس ڈائجسٹ، اپریل ۱۹۹۱)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔​
ہزار باتوں کی ایک بات کی علامہ جون ایلیاء نے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا اسے ہی کہتے ہیں۔
حسان بھائی بہت شکریہ۔
آپ آجکل انشائیے شائع کر رہے ہیں۔ اگر کوئی برقی ربط میسر ہے تو ذاتی پیغام میں ہمیں بھی مستفید فرمائیں۔ نوازش ہوگی :)
 

حسان خان

لائبریرین
آپ آجکل انشائیے شائع کر رہے ہیں۔ اگر کوئی برقی ربط میسر ہے تو ذاتی پیغام میں ہمیں بھی مستفید فرمائیں۔ نوازش ہوگی :)

بھائی جان، میں یہ انشائیے کتاب سے براہِ راست ٹائپ کر رہا ہوں اور فی الحال کتاب برقی شکل میں کہیں موجود نہیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھائی جان، میں یہ انشائیے کتاب سے براہِ راست ٹائپ کر رہا ہوں اور فی الحال کتاب برقی شکل میں کہیں موجود نہیں۔ :)
آپکی محنت اور کاوش کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔ میں یہاں اسلام آباد میں فرنود کو تلاشتا رہا ہوں۔ پر نہیں ملی :)
 
کیا یہاں کبھی یہ سوچا گیا کہ اسلحہ درآمد کرنے والے، اسلحہ برآمد کرنے والوں سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر مقابلہ کر بھی گزریں تو کیسے فتح پا سکتے ہیں؟
کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟
سادہ سا جواب ہے۔نہیں
ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔
تلخ سچائی ہے یہ
تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ علم، دانش اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ علم کے سامنے ذلیل ہونا جہالت کا مقدر ہے، جمہوریت کے مقابلے میں شکست کھانا آمریت کا مقسوم ہے اور کوئی قوم اپنے تاریخی مقدر اور مقسوم سے سرتابی نہیں کر سکتی۔ جو قوم علم، دانش اور جمہوریت کے ساتھ زندہ رہنے کا شعور نہیں رکھتی، اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ علم، دانش اور جمہوریت یہی قوموں کے لیے ایک نسخۂ کیمیا ہے، بس!
سچ تو یہ ہے کہ صرف علم ہی سچائی ہے
 
Top