سید رافع صاحب، آپ نے دوسرے حصے میں جو تعریفیں پیش کیں ، وہ مروجہ ہیں، آپ نے دیکھا کہ آپ کی پیش کردہ اور میری پیش کردہ الفاظ کی ان تعریفوں میں فرق ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہم فی الحال یہ فرق نظر انداز کردیتے ہیں اور اگر اجازت ہو تو پہلے آپ کی فراہم کردہ تعریفوں کی بنیاد پر ان آیات اور ان کے نتائج ایک عام آدمی ہی نہیں بلکہ ساری قوم پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں ، اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہافقیہ ، ام اویس اور چودھری مصطفی اس تجزیہ پر نظر رکھیں اور اگر کچھ بھی معلومات آپ کی فراہم کردہ الفاظ کی تعریفوں یا قرآن اور سنت رسول سے باہر ہوں تو نشاندہی فرمادیں۔ تاکہ اس کو درست کیا جاسکے۔
یہ تجزیہ ہم ایک سے زائید سوالات کی مدد سے کریں گے، ان سوالات کا مقصد اس سارے پراسیس کا تجزیہ ہے ناکہ کسی ایک حاضر فرد پر نکتہ چینی۔ لہذا سب نظر رکھیں۔
پہلا سوال۔ جواب آپ اپنی فراہم کردہ تعریفات کی روشنی میں دیجئے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ جمع کرنے والے اور بانٹنے والے کون ہوں گے اور کس طرح اس کو بانٹیں گے اور ان مدوں کی سورس آف انکم کیا قرار پائے گی؟
خُمُسَهُ، الصَّدَقٰتُ، وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ اور
الزَّكٰوةَ۔
ان سب کو کوئی نا کوئی دیتا ہے، کوئی نا کوئی اس کو تقسیم کے لئے جمع کرتا ہے اور کسی نا کسی کو ادا کیا جاتا ہے۔ اور ان سب کا کوئی نا کوئی سورس ہوتا ہے کیا ہم یہ طے کرسکتے ہیں کہ کیا چاروں مد ایک ہی ہیں یا الگ الگ ہیں؟ ان میں سے ہر ایک مد کس نے ادا کرنی ہے؟ اور کون جمع کرے گا اور کس کو ادا کی جائے گی۔ اور چاروں کا ذریعہ آمدنی کس طرح طے کیا جاتا ہے؟
ذیل میں مال کی مختلف اقسام کا ذکر ہے کہ کون جمع و تقسیم کرے گا، انکے نصاب و مصرف کیا ہیں اور کیا مال کی یہ قسم نفل ہے یا فرض یا حرام۔
1-
انفال۔(
مال نفل)۔ انسان کی فرض ضرورت سے زائد حاصل ہونے والی شئے۔ اللہ اور اسکے رسول 100 فیصد مال نفل کے مالک ہیں۔ (
8:1)
قسم: نفل
جمع: اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (
9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (
9:60)
نصاب: دو دن سے زائدکھانا۔ (المعجم الاوسط، الحدیث:۴۸۰۹،ج۳،ص۳۴۸۔)
مصرف: کسی بھی حلال کام میں۔
ایک دن سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدارﷺ حضرتِ سیِّدُنا ابو ذر غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:’’اے ابو ذر! کیاتم جانتے ہو کہ تمہارے سامنے ایک سخت اوردشوار گزار گھاٹی ہے، اس کوصرف ہلکے لوگ ہی عبورکر سکیں گے؟‘‘ ایک شخص نے عرض کی:’’ یارسول اللہ تاجدارﷺ! کیا میں ہلکے بوجھ والے لوگوں میں سے ہوں یا بھاری بوجھ والوں میں سے؟‘‘ آپتاجدارﷺ نے دریافت فرمایا:’’کیا تیرے پاس آج کا کھانا ہے؟‘‘اس نے عرض کی:جی ہاں ، آپ تاجدارﷺنے ارشاد فرمایا:’’کل کا کھاناہے؟‘‘اس نے عرض کی:جی ہاں ، تو آپ تاجدارﷺ نے ارشاد فرمایا:’’کل کے بعد کا کھانا ہے؟‘‘ اس نے عرض کی : نہیں۔ توآپتاجدارﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تیرے پاس تین دن کا کھانا ہوتا تو تُو بھاری بوجھ والوں میں سے ہوتا۔‘ (المعجم الاوسط، الحدیث:۴۸۰۹،ج۳،ص۳۴۸۔)
1…البحرالزخارالمعروف بمسند البزار، مسند ابی الدردائ، الحدیث:۴۱۱۸،ج۱۰،ص۵۵۔
2…مجمع الزوائد،کتاب الزکوۃ،باب ماجاء فی السوال، الحدیث: ۳۰۴۵،ج۳،ص۲۵۹۔
2-
غَنِمْتُم۔ (
مال غنیمت)۔ جنگ میں حاصل ہونے والا سامان۔ پانچ حصے کیے جائیں گے۔ چار مجاہدین کے اور ایک خمس کے لیے۔ (
48:20 ،
48:19 ،
48:15 ،
4:94۔
8:69 ،
8:41)
قسم: فرض
جمع: سپہ سالار اور مجاہدین۔
تقسیم: امام وقت۔
نصاب: ایک تیر یا اس سے بھی کم۔
مصرف: چار مجاہدین کے اور ایک خمس کے لیے۔ (
8:41)
3۔
خُمُسَهُ۔(مال خمس)۔ مال غنیمت کا
پانچواں حصہ۔ اس کے بھی پانچ حصہ ہوں گے۔ ایک ایک رسول، رسول کےقرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں کے لئے ہے۔ (
8:41)
قسم: فرض
جمع: سپہ سالار اور مجاہدین۔
تقسیم: امام وقت۔ (
سنن ابی داود- كِتَاب قسم الفىء- حدیث 4147)
نصاب: ایک تیر یا اس سے بھی کم۔
مصرف: رسول اور انکے رشتے دار اور دیگر یتیم، محتاج و مسافر۔ (
سنن ابی داود- كِتَاب قسم الفىء- حدیث 4152)
4-
الصَّدَقٰتُ-(
مال تصدیق)- مال جو انسان سچا بننے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (
58:13 ،
58:12 ،
9:104 ،
9:79 ،
9:60 ،
9:58 ،
9:103 ،
4:114 ، 2:276 ،
2:271 ،
2:264 ،
2:263 ،
2:196)
قسم: نفل
جمع: اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (
9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (
9:60)
نصاب: ضرورت سے زائد کچھ بھی ہو۔
مصرف: صدقہ کے مصارف میں۔ (
9:60)
- لِلۡفُقَرَآءِ (فقیر)
- وَالۡمَسٰكِيۡنِ (مسکین)
- وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا (صدقے کی وصولی پر معمور عملہ)
- وَالۡمُؤَلَّ۔فَةِ قُلُوۡبُهُمۡ (جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو جیسے نئے مسلم)
- وَفِى الرِّقَابِ (غلام آزاد کرانے میں)
- وَالۡغٰرِمِيۡنَ (قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں)
- وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (اللہ کی راہ میں)
- وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ (مسافروں پر )
5-
وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ۔ (
مال محبت)۔ مال جو انسان اللہ کی محبت میں خرچ کرتا ہے۔ (
2:177)
قسم: نفل
جمع: بہتر ہے کہ خود خرچ کرے۔ اگرکوئی یہ نفل مال دینا چاہےتو امام وقت کے مقرر کردہ عاملین جمع کریں۔ (
9:60)
تقسیم: بہتر ہے کہ خود خرچ کرے۔ امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (
9:60)
نصاب: جب بھی اللہ کی محبت میں خرچ کرنے کو دل چاہے۔
مصرف: ذیل میں درج ہیں۔ (
2:177)
- ذَوِى الۡقُرۡبٰى (قرابت داروں پر)
- وَالۡيَتٰمٰى (یتیموں پر )
- وَالۡمَسٰكِيۡنَ (محتاجوں پر)
- وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ (مسافروں پر)
- وَالسَّآٮِٕلِيۡنَ (مانگنے والوں پر)
- وَفِىۡ الرِّقَابِۚ (غلاموں کی گردنوں کو آزاد کرانے میں)
6-
الزَّكٰوةَ۔(مال پاکیزگی)۔ وہ فرض مال دینا جو انسان کو بنیادی پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ (
19:31 ،
9:71 ،
9:18 ،
9:11 ،
9:5 ،
7:156 ،
5:55 ،
5:12 ،
4:162 ،
4:77،
2:277 ،
2:177 ،
2:110 ،
2:83 ،
2:43)
قسم: فرض
جمع: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (
9:60)
تقسیم: امام وقت کے مقرر کردہ عاملین۔ (
9:60)
نصاب: چاندی، سونا، غلہ، پھل، جانور اور دیگر کا الگ الگ نصاب ہے۔
مصرف: صدقہ کے مصارف میں۔ (
9:60)
- لِلۡفُقَرَآءِ (فقیر)
- وَالۡمَسٰكِيۡنِ (مسکین)
- وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا (صدقے کی وصولی پر معمور عملہ)
- وَالۡمُؤَلَّ۔فَةِ قُلُوۡبُهُمۡ (جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو جیسے نئے مسلم)
- وَفِى الرِّقَابِ (غلام آزاد کرانے میں)
- وَالۡغٰرِمِيۡنَ (قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں)
- وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (اللہ کی راہ میں)
- وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ (مسافروں پر )
7:
الرِّبٰو: (مال اضافہ)۔ وہ اضافی مال (یا شئے) جو کسی مال (یا شئے) کی واپسی پر دیا جائے۔ (
30:39 ،
4:161 ،
3:130 ،
2:278 ،
2:276 ،
2:275)
قسم: حرام
جمع: حرام
تقسیم: حرام
نصاب: ایک تنکہ یا اس سے بھی کم۔ (
صحيح البخاری - كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ - حدیث 3814)
مصرف: بدحواسی۔ (
2:275)
8۔
اَمۡوَالِ النَّاسِ: (مال عوام)۔ لوگوں کے مال (یا شئے)۔ مثلاً سونا، چاندی، کرنسی، جواہرات، زمین، سامان تجارت، غلہ، پھل (
30:39)
قسم: عوام کے ذاتی مال۔گھریلو یا تجارتی سامان یا زمین وجائداد جانور یا نقد سرمایہ جو فریاد جماعت کی ملکیت میں ہو۔
جمع: حلال ذرائع۔
تقسیم: حلال ذرائع۔
نصاب: ایک تنکہ یا اس سے بھی کم۔
مصرف: کسی بھی حلال مد میں خرچ کریں۔