زہر پیالہ : شفیع عقیل دی پنجابی نظماں اردو ترجمے نال ؛ پنجابی نظمیں اردو ترجمہ کے ساتھ

الف نظامی

لائبریرین
شاماں ویلے
ہوا ، ہنیرا ، اِنج پئے سَہکن
جیویں ڈَنگے ہوئے
آپݨی زہری چُپ دی سُولی
دونویں ٹںگے ہوئے


شام کے وقت
ہوا اور اندھیرا ، دونوں اس طرح سسک رہے ہیں
جیسے انہیں کسی نے ڈَس لیا ہو
دونوں اپنی زہر بھری خاموشی کی سُولی پر
لٹکے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ساگر چھَلّاں
دشمن وانگوں ہِکّاں تانی
کنڈھے دے ول آون
دھرتی دا پر دُکھ جد ویکھن
ڈِگ ڈِگ ٹکراں مارن


سمندر کی لہریں
سمندر کی لہریں دشمن کی مانند سینے تان کر
کنارے کی طرف آتی ہیں
لیکن جب وہ آگے دھرتی کا دکھ دیکھتی ہیں تو
کنارے پر گر گر کے بار بار اپنا سر پٹختی ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
ہنیرا تے چانن
آساں بھریا رات ہنیرا
سُفنہ بن کے آوے
سُورج نکلے ، چانن جاگے
سب کُجھ لُٹ لے جاو


اندھیرا اور روشنی
اُمیدوں سے بھرا ہوا رات کا اندھیرا
خواب بن کر میرے پاس آتا ہے
مگر جب سورج نکلتا ہے اور روشنی جاگتی ہے
تو وہ سب کچھ ، یہ سارے خواب لوٹ کر لے جاتی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
کدی کدی
کدی ہنیرے اندر جھاکاں
دِسدے کِنّے چہرے
کدی میں چانن وِچ کھلوواں
آپݨا آپ نہ دِسّے


کبھی کبھی
کبھی میں اندھیرے میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو
مجھے کئی چہرے دکھائی دیتے ہیں
اور کبھی میں روشنی میں کھڑا ہوتا ہوں تو
مجھے اپنا آپ بھی دکھائی نہیں دیتا
 

الف نظامی

لائبریرین
ویاہ والا گھر
میل (مےل) تے جانجی ہَس ہَس آکھن
کُڑی کرے گی راج
ماں پیو ، سوہرے ، قرضیں وِنھے
بُک بُک رووے داج


شادی والا گھر
رشتہ دار اور باراتی ہنس ہنس کر کہہ رہے ہیں
کہ یہ لڑکی تو نئے گھر میں راج کرے گی
مگر لڑکی کے ماں باپ اور سُسرال والے قرضوں میں بندھ چکے ہیں
اور جہیز کا سامان پڑا آنسو بہا رہا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
سُورج
گھُپ ہنیرے کولوں ڈر کے
آپݨی لَو وِچ لُکیا
تَپدی ذات تنور بنائی
آپݨی اَگ وچ پھُکیا


سُورج
سورج گھور اندھیرے سے خوفزدہ ہو کر
اپنی روشنی میں چھپا ہے
اس نے اپنی تپتی ہوئی ذات کو اپنے لئے تندور بنا لیا ہے
اور اپنی ہی آگ میں جل رہا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
منُکھ
صدیاں پہلوں سچ نُوں ڈھونڈن
جیوَن راہوَاں چَلّیا
سچ نُوں لَبھدا لَبھدا اوڑک
خود وی جھُوٹ چ رَلیا


انسان
انسان صدیوں پہلے سچ کی تلاش میں
زندگی کی راہوں پر چلا تھا
لیکن سچ کو تلاش کرتے کرتے وہ خود بھی
جھُوٹ میں مل گیا
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
چِت
کدی اے سوچاں ہمبلا ماراں
آپݨے اندروں نِکلاں
کد تک آپݨے آپ دا قیدی
ذات دے سنگل توڑاں


خیال
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ چھلانگ لگا کر
اپنے اندر سے باہر نکل آوں
یہ میں کب تک اپنے آپ کا قیدی بنا رہوں گا
کیوں نہ یہ ذات کی بھاری زنجیریں توڑ دوں
 

الف نظامی

لائبریرین
آپݨی اَنا دا بالݨ
آپݨی اَنا دا بالݨ بن کے
سُورج سَڑدا جاوے
تارے ، چَنّ تے رات گوا کے
ہُن کَلّا پچھتاوے


اپنی انا کا ایندھن
اپنی انا کا ایندھن بن کر
سُورج جلتا جا رہا ہے
ستارے ، چاند اور رات کو گنوا بیٹھا ہے اور
اب اکیلا پچھتا رہا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
وارث نوں
بیلے دے وچ کیدو لُکیا
شہریں کھیڑے وَسدے
ہیر وچاری روے بیٹھی
وارث نوں کوئی دسدے


وارث کے نام
بیلے میں جہاں ہیر رانجھے سے ملنے جاتی تھی وہاں اس کا ظالم چچا
کیدو چھپا ہوا ہے
اور شہر میں ظالم کھیڑے رہتے ہیں
بیچاری ہیر مجبور ہے ، وہ اکیلی بیٹھی رو رہی ہے۔ کاش کوئی یہ بات وارث شاہ کو جا کر بتا دے جس نے ہیر کی داستان لکھ کر اس کے دُکھ بٹائے تھے!
 

الف نظامی

لائبریرین
دُوری تے نیڑا (نے-ڑا)
وَسّن کول تے لوک نہ دِسدے
پَر جَد وِچھّڑ جَاوَݨ
دُوری دے وِچ اینی قُربت
پَل پَل یاداں آوݨ


دُوری اور قرب
لوگ جب نزدیک بستے ہیں تو نظر نہیں آتے
ان کا خیال تک نہیں آتا لیکن جب وہ بچھڑ جاتے ہیں
تو دُوری میں اس قدر قربت چھپی ہوتی ہے کہ
بچھڑنے والے ہر پل یاد آتے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
سُفنے ورگے لوک
لوکیں سُفنے بن کے مِلدے
نیندر دے وِچ آݨ
اَکھاں کھولاں ، یاد دے بُلّے
پَل وِچ اُڈ پُڈ جاݨ


خواب جیسے لوگ
لوگ خواب بن کر ملتے ہیں
اور نیند میں میرے پاس آتے ہیں
جب میں آنکھیں کھولتا ہوں تو یاد کے جھونکے
پل بھر میں غائب ہو جاتے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
اِک ڈورا
چارے بَنّے شور سُنا جَد
سوچاں ، دل وِچ ڈر دا
خورے ایہنے کیہہ کُجھ سُنیا
جو ایہہ ڈورا ہویا


ایک بہرا
جب میں اپنے چاروں طرف شور سنتا ہوں تو
دل میں ڈرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ
نہ جانے اس آدمی نے کیا کچھ سُنا ہے
جو اس طرح بہرا ہو گیا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
جَھلّیاں رُتّاں
ٹھنڈی سِیت ہوا وچ لنبو
رُتّاں جھلیاں ہوئیاں
گلی گلی وچ ٹکراں مارَن
کِتے نہ ملدیاں ڈھوئیاں


پاگل رُتیں
شدید سرد ہوا میں شعلے اُٹھ رہے ہیں
ایسے لگتا ہے جیسے رُتیں پاگل ہو گئی ہیں
وہ گلی گلی میں سر ٹکراتی پھر رہی ہیں اور
انہیں کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا
 

الف نظامی

لائبریرین
پکیاں راہوَاں
پکیاں راہواں چلدے چلدے
توں میں کتھے آگئے؟
آپنا آپ گواچا دِسدا
رُکھ پرچھاویں کھا گئے


آسیب زدہ راستے
آسیب زدہ راستے چلتے چلتے
تو اور میں کہاں آگئے ہیں؟
یہاں تو اپنا آپ کھویا ہوا محسوس ہوتا ہے
یہاں درختوں نے اپنے سائے خود کھا لئے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
عدلی راجہ
عدلی راجہ مُنصف بَنیا
میں رانجھا تُوں ہیر
کھیڑے اُچّے اُچّے ہو بہندے
سچ بَنیا تقصیر


عدلی راجہ
عدلی راجہ منصف بن گیا ہے
میں رانجھا ہوں اور تو ہیر ہے
کھیڑے سر اُٹھا اُٹھا کر بلند مقام پہ بیٹھ رہے ہیں
اور سچ جرم بن گیا ہے

نوٹ: ہیر اور رانجھا کو گرفتار کر کے عدلی راجہ کے پاس انصاف کے لئے لایا گیا تھا اور اس نے رانجھے سے ہیر کو چھین کر کھیڑوں کے سپرد کر دیا تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آس کھڈاوݨے
آس کھڈاوݨے کچیاں وَنگاں
رنگ تے ناں بھُل جاویں
پیار ٹکور وی سہہ نہ سَکدے
سوچ سمجھ کے پاویں


امید کے کھلونے
اُمیدیں ایسے کھلونے ہیں جو کانچ کی چوڑیوں کی طرح ہوتے ہیں
اے لڑکی ! تو محض ان کے رنگ پر مت پھُول جانا ، یہ ایسی نازک
چوڑیاں ہیں جو پیار کی ٹھیس بھی برداشت نہیں کر سکتیں
اس لئے سوچ سمجھ کر انہیں کلائیوں میں پہننا
 

الف نظامی

لائبریرین
آپݨا خوف
آپݨے خوف دی چادر لَے کے
تھاں تھاں جھاتی پاوان
جِنّہوں سجّن دشمن سمجھاں
نِکلے اوہ پرچھَاواں


اپنا خوف
میں اپنے ذات کے خوف کی چادر اوڑھ کر
جگہ جگہ جھانکتا پھر رہا ہوں
اور میں جسے اپنا دوست یا دشمن سمجھتا ہوں جب اسے
غور سے دیکھتا ہوں تو وہ محض میرا سایہ ہوتا ہے
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اوڑک
رسماں ریتاں پاٹے لیڑے
کَد تک دھو دھو پاوݨے
پاپ تے پُن وِچ لِبڑے ہوئے
اوڑک اِک دن لاوہݨے


آخر کار
یہ پرانی رسمیں اور ریتیں پھٹے ہوئے لباس کی طرح ہیں
تو کب تک ان کو دھو کر پہنتا رہے گا؟
اور یہ پھٹا ہوا لباس بھی ایسا ہے جو گناہ اور ثواب میں لتھڑا ہوا ہے
اسے ایک نہ ایک دن تو اتارنا ہی پڑے گا
 

الف نظامی

لائبریرین
دُوری
تن توں من دی کِنّی دُوری
پندہ نہ مُکدا میتھوں
وَرھیاں توں میں سفر تے جاری
حالی دُور میں تیتھوں


دُوری
نہ جانے تن سے من تک کا فاصلہ کتنا طویل ہے کہ
اس کا سفر مجھ سے اب تک طے نہیں ہو سکا
میں برسوں سے اس سفر پر جاری و ساری ہوں مگر
تو ابھی تک مجھ سے اسی طرح دُور ہے
 
Top