زہر

زہر صدیوں سے انسان کے ساتھ زندگی اور موت کا کھیل کھیل رہا ہے۔ اب تک دنیا کی بہت سی اہم شخصیات اور بڑے بڑے بادشاہوں کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا ہے۔ آج تک اس نے بے شمار قیمتی انسانی جانیں لی ہیں۔ ارسطو سے لے کر عظیم روسی حکمران تک بہت سے لوگ اس قاتل شے کا نشانہ بنے۔ ابتدا میں زہر صرف سانپ اور نباتات سے حاصل کیا جاتا تھا۔ گبون وائپر سانپ میں زہر کی مقدار ایک وقت میں ۸۰ملی گرام تک چھوڑلی جا سکتی ہے۔ اگر یہ زہر ۸۰ انسانوں پر تقسیم کر دیا جائے تو ایک بھی باقی نہیں بچے گا۔ کالا ممبا ایک ایسا سانپ ہے جس کے کاٹنے کے بعد انسانی خون کالا ہو جاتا ہے۔قدرت نے انہیں یہ زہر دہشت پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنا دفاع کرنے کے لیے عطا کیا ہے۔ زہر حاصل کرنے کے لیے سانپوں کے باقاعدہ فارم بنائے جاتے ہیں۔ ہسپانیہ مکڑی میں ٹاکسک زہر موجود ہوتا ہے۔ آج کل اس کی بہت تھوڑی مقدار نیم پاگل اور دیوانے پن کا علاج کرنے میں استعمال کی جا رہی ہے۔ نباتاتی زہر بھی سانپوں سے کم زہریلا نہیں ہوتا۔ اولینڈر یا کسم سری لنکا میں پایا جانے والا ایک خوبصورت پھول ہے۔ کیونکہ یہ خود روپودا وہاں عام ملتا ہے۔ اس لیے اپنے حق میں وہاں موت طلب کرنا بہت آسان ہے۔ گزشتہ سال اس خطے میں اس پھول سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳۰۰۰ سے زیادہ رہی۔ عشق پیچاں پھول کے بیج سے موت کا خطرہ نوے فیصد ہوتا ہے۔ آسٹریلیا کی بل ڈاک مکھی تین انچ کی ہوتی ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں بائیس مرتبہ اپنے شکار کو ڈنک مارتی ہے۔ اس کے زہر سے بڑے سے بڑا پہلوان پندرہ منٹ میں جان سے چلا جاتا ہے۔ فلائنگ جیکو چھپکلی کا زہر آج کل دل کے بائی پاس کی جگہ متبادل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس زہر سے بنایا گیا ایک کیپسول پاکستانی تیس ہزار روپوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ دنیا کے سب سے زہریلے ڈارٹ (Dart)مینڈک کی کھال میں اتنا زہر موجود ہوتا ہے کہ بیس آدمیوں کو باآسانی موت کی نیند سلا سکتا ہے۔ افریقا کے لوگ آتشی مینڈک کو آگ پر سینکتے ہیں۔ اس طرح اس کے جسم پر ایک گاڑھا مادہ نکل کر موم کی طرح جم جاتا ہے۔ یہ زہر شکار کرنے کے لیے تیر کی انی پر لگایا جاتا ہے۔ ایسا زہریلا تیر جس جانور کے لگے، وہ بہت جلدی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اس نوعیت کے زہریلے مینڈک بڑے شوخ رنگوں والے ہوتے ہیں۔ اسٹرابیری اور کیپ گھوسٹ یعنی بھوت مینڈک کے زہر کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت آج کل کیمرون میں عروج پر ہے۔ یہ زہر بے شمار دوائیں بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح کے رنگ برنگے مینڈک دو سے تین انچ تک ہوتے ہیں۔ پہلے زمانے کے بادشاہ پانی کی جگہ دودھ پیتے تھے کیونکہ دودھ میں زہر نظر آجاتا تھا۔
ربط
http://bazmesathi.org/kahani_body.php?show=55
 

مہ جبین

محفلین
مضمون تو بیشک کافی معلوماتی ہے لیکن اس کو پڑھ کر جو شعر ذہن میں آیا اسکا اس سے کوئی ربط تو نہیں بنتا پھر بھی لکھ دیتی ہوں۔۔۔

مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی آبِ بقا اور سہی

سید شہزاد ناصر بھائی سے معذرت کے ساتھ :oops:
 
مضمون تو بیشک کافی معلوماتی ہے لیکن اس کو پڑھ کر جو شعر ذہن میں آیا اسکا اس سے کوئی ربط تو نہیں بنتا پھر بھی لکھ دیتی ہوں۔۔۔

مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی آبِ بقا اور سہی

سید شہزاد ناصر بھائی سے معذرت کے ساتھ :oops:
یہ پوری غزل میں شریک محفل کر چکا ہوں :battingeyelashes:
 
اتنے مہنگے مہنگے زہر کون پیے اب ؟ کوئی سستا بھی بتا دیتے :p
آجکل زہر اور نشہ دونوں بہت مہنگے ہیں یار
غم زندگی تھا اس پر بار عظیم
خود کشی کو لینے گیا تولہ افیم
سنا جو بازار کا بھاؤ کلیجہ پھٹ گیا
کتنا مہنگا تھا سفر سستا کٹ گیا :grin:
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مضمون تو بیشک کافی معلوماتی ہے لیکن اس کو پڑھ کر جو شعر ذہن میں آیا اسکا اس سے کوئی ربط تو نہیں بنتا پھر بھی لکھ دیتی ہوں۔۔۔
مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی آبِ بقا اور سہی
سید شہزاد ناصر بھائی سے معذرت کے ساتھ :oops:
مہ جبین آپا!
:AOA:
خدا خیر کرے۔ خیریت تو ہے نا؟
 

مہ جبین

محفلین
مہ جبین آپا!
:AOA:
خدا خیر کرے۔ خیریت تو ہے نا؟
وعلیکم السلام فارقلیط رحمانی بھیا
الحمدللہ سب خیریت ہے
بس ایویں یہ شعر ذہن میں آیا اور میں نے لکھ دیا
ویسے سید زبیر بھائی نے بالکل ٹھیک فرمایا کہ ہمارے معاشرے میں نفرتوں کا زہر اتنا عام ہے کہ کسی اور زہر کی ضرورت ہی نہیں :(
 

عسکری

معطل
آجکل زہر اور نشہ دونوں بہت مہنگے ہیں یار
غم زندگی تھا اس پر بار عظیم
خود کشی کو لینے گیا تولہ افیم
سنا جو بازار کا بھاؤ کلیجہ پھٹ گیا
کتنا مہنگا تھا سفر سستا کٹ گیا :grin:
فرنیل کی گولیاں ابھی اتنی مہنگی نہیں ہوئی ہیں :p
 
Top