محمداحمد
لائبریرین
مزاج اپنا ،خیال اپنا ،پسند اپنی ,کمال کیا ہے؟
جو یار چاہے ،وہ حال اپنا بنا کہ رکھنا ،کمال یہ ہے
مشکل تو ضرور ہوتا ہے نئے خیال کو جگہ دینا مگر اس سے بھی زیادہ مشکل ہے پرانے خیالات کو جھٹکنا جو شاخ در شاخ ہمارے دماغ کے ہر کونے میں کسی آ کاش بیل کی طرح بسیرا کیے ہوتے ہیں۔
ایک دماغ اپنے آپ کو کیسے تبدیل کرتا ہے یا دوسروں کے دماغوں کو کیسے بدلتا ہے؟
پہلے سے موجود انتہائی جدید کمپیوٹر نظاموں Intelligent Computational Systems بہت آسانی سے انسانی ذہن کی بہترین mimicry نقالی کر رہے ہیں۔ اور ہر دن آنے والے بہتر سے بہتر algorithms کے زریعہ users ( جو آپ بھی ہیں اور میں بھی) کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بہت آسانی سے اُس user کے خیالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ وہ خیالات مذہبی ، سیاسی، اخلاقی یا معاشرتی نظریات کے متعلق ہوں ،سب ہی اسکے نشانے پر ہو سکتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں زمانہ نے ایک نئی کروٹ لی ہے اب جغرافیہ صرف مکان یعنی space کا نام نہیں۔ virtual space ایک نئی حقیقت ہے جس میں کرونا کے بعد بالخصوص کرہ ارض پر موجود تمام انسان ہی اپنے اپنے “ مکان /space” اور پلاٹ لے چکے ہیں۔ اس virtual دنیا میں آپ بھی موجود ہیں۔ انسان صنعتی معاشرے ( industrial society)سے اب ایک “انفارمیشن سوسائٹی” میں تبدیل ہو چکا ہے ۔
بغیر اخلاقی تربیت کے انسان کے ہاتھ میں کمپیوٹر کا یہ کھلونا بندر کے ہاتھ میں بندوق تھما دینا ہے۔ اور اُسکا نتیجہ اتفاقاً آج ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جو tiktok نامی ایپلیکشن پر نشر ہونے والی وڈیوز پر مبنی ہے ، دیکھنے کو ملا۔
طبعیت کی نرگسیت، شناخت اور پہچانے جانے کی بھوک اور اسکے ساتھ ساتھ پیسے اور شہرت کے لالچ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بنائی جانے والی وڈیوز کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل کی دماغی حالت اور جس طرح سے یہ میکانزم اس دماغ کو ایک پٹڑی پر چڑھا رہ ہے صاف دکھائی دیتا ہے۔
اس virtual space میں پاکستانی نوجوان نسل بالخصوص 15-25 سال کے لڑکے لڑکیوں کی content contribution کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ کوئی سا بھی algorithm اس کا جو نتیجہ نکالے گا وہ ایک لفظ میں “بھانڈ” لکھے گا۔
پتہ نہیں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو تین چار سالوں میں شادی کے بعد ماں باپ بننے والے ہیں کس طرح اپنے بچوں کو اخلاقیات ، اقدار یا شرم و حیا کا کوئی بھی سبق اپنے بچوں کو سکھا پائیں گے۔ یہ بیچارے تو یہ جھوٹ بھی نہ بول سکیں گے کہ “ ہمارے زمانے میں یہ ہوتا تھا” کیونکہ انکے زمانے کا تو سارا ریکارڈ وڈیو کی صورت میں ان کی اولادوں کی پہنچ میں ہو گا۔ ایک بیٹی اپنی ماں اور ایک بیٹا اپنے باپ کو بہ آسانی ٹریک کر سکے گا۔ ٹھمکے لگاتی وڈیوز کے ٹریک میں ایک ماں کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا اپنی بیٹی کو سر پر چادر کرنے کا درس دینا۔ گالیاں بکتی اور ٹھٹھہ اڑاتی وڈیوز کے ٹریک ریکارڈ کی موجودگی میں ایک بیٹا کیسے اپنے باپ کی عزت کرنا سیکھ پائے گا؟
یہ unprepared minds جس نئی اخلاقیات ، اقدار اور نئے کلچر اور طرز معاشرت کے کیے جو زمین ہموار کر رہے اور جو بیج بو رہے ہیں ، اسکی فصل کیسے اُترے گی اور اُس کا کیا پھل نکلے گا اور اُس کا کیا زائقہ ہوگا۔ شاید کسی کو بھی اسکا اندازہ نہیں۔
ایک ریاست میں سُنا ہے تین ستون ہوتے ہیں۔ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ ۔۔۔لگتا ہے کہ تینوں اس پس منظر میں پیٹھ موڈے اپنا اپنا بد ذائقہ چارہ کھانے میں مصروف ہیں۔
میں بھی کس ہٹ دھرمی سے یہ سب لکھ رہا ہوں ؛ اقبال نے تو ہماری نسل کو بھی “شاہین “ دیکھا تھا جو اسکول میں ہر دن
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
پڑھ کر دن کا آغاز کرتا رہا۔ کیا irony ہے کہ میری زندگی کی شمع کی روشنی میں اس نوجوان نسل کو کوئی رستہ نہ دکھائی دیا نہ سُجھائی دیا۔
شاہین کیا بنتے گدھے بنے رہے اور ان گدھوں میں جو بہتر تھے جو اس معاشرہ کے زبیرا تھے ( انتظامیہ، عدلیہ و مقننہ) وہ پیٹھ موڈے اپنا اپنا بد زائقہ چارہ کھانے میں مصروف ہیں۔
غلط فہمی کوئی بھی نہیں ، اقبال کی سُن کر ہم کونسا شاہین بننے کی جستجو میں لگ گئے جو ہم گدھوں کی سُن کر آپ اپنی زندگی کی شمع کو اس قابل کرنے کی جستجو کریں گے کہ اس کی روشنی میں اگلی نسل کوئی رستہ دیکھ سکے گا۔
کاش یہ تینوں زیبرے پیچھے مُڑ کر ان گدھوں کو دیکھیں۔
سمع خراشی کی معذرت
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
بشکریہ فیس بک
جو یار چاہے ،وہ حال اپنا بنا کہ رکھنا ،کمال یہ ہے
مشکل تو ضرور ہوتا ہے نئے خیال کو جگہ دینا مگر اس سے بھی زیادہ مشکل ہے پرانے خیالات کو جھٹکنا جو شاخ در شاخ ہمارے دماغ کے ہر کونے میں کسی آ کاش بیل کی طرح بسیرا کیے ہوتے ہیں۔
ایک دماغ اپنے آپ کو کیسے تبدیل کرتا ہے یا دوسروں کے دماغوں کو کیسے بدلتا ہے؟
پہلے سے موجود انتہائی جدید کمپیوٹر نظاموں Intelligent Computational Systems بہت آسانی سے انسانی ذہن کی بہترین mimicry نقالی کر رہے ہیں۔ اور ہر دن آنے والے بہتر سے بہتر algorithms کے زریعہ users ( جو آپ بھی ہیں اور میں بھی) کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے بعد بہت آسانی سے اُس user کے خیالات کو بدلا جا سکتا ہے۔ وہ خیالات مذہبی ، سیاسی، اخلاقی یا معاشرتی نظریات کے متعلق ہوں ،سب ہی اسکے نشانے پر ہو سکتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں زمانہ نے ایک نئی کروٹ لی ہے اب جغرافیہ صرف مکان یعنی space کا نام نہیں۔ virtual space ایک نئی حقیقت ہے جس میں کرونا کے بعد بالخصوص کرہ ارض پر موجود تمام انسان ہی اپنے اپنے “ مکان /space” اور پلاٹ لے چکے ہیں۔ اس virtual دنیا میں آپ بھی موجود ہیں۔ انسان صنعتی معاشرے ( industrial society)سے اب ایک “انفارمیشن سوسائٹی” میں تبدیل ہو چکا ہے ۔
بغیر اخلاقی تربیت کے انسان کے ہاتھ میں کمپیوٹر کا یہ کھلونا بندر کے ہاتھ میں بندوق تھما دینا ہے۔ اور اُسکا نتیجہ اتفاقاً آج ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جو tiktok نامی ایپلیکشن پر نشر ہونے والی وڈیوز پر مبنی ہے ، دیکھنے کو ملا۔
طبعیت کی نرگسیت، شناخت اور پہچانے جانے کی بھوک اور اسکے ساتھ ساتھ پیسے اور شہرت کے لالچ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بنائی جانے والی وڈیوز کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل کی دماغی حالت اور جس طرح سے یہ میکانزم اس دماغ کو ایک پٹڑی پر چڑھا رہ ہے صاف دکھائی دیتا ہے۔
اس virtual space میں پاکستانی نوجوان نسل بالخصوص 15-25 سال کے لڑکے لڑکیوں کی content contribution کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ کوئی سا بھی algorithm اس کا جو نتیجہ نکالے گا وہ ایک لفظ میں “بھانڈ” لکھے گا۔
پتہ نہیں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو تین چار سالوں میں شادی کے بعد ماں باپ بننے والے ہیں کس طرح اپنے بچوں کو اخلاقیات ، اقدار یا شرم و حیا کا کوئی بھی سبق اپنے بچوں کو سکھا پائیں گے۔ یہ بیچارے تو یہ جھوٹ بھی نہ بول سکیں گے کہ “ ہمارے زمانے میں یہ ہوتا تھا” کیونکہ انکے زمانے کا تو سارا ریکارڈ وڈیو کی صورت میں ان کی اولادوں کی پہنچ میں ہو گا۔ ایک بیٹی اپنی ماں اور ایک بیٹا اپنے باپ کو بہ آسانی ٹریک کر سکے گا۔ ٹھمکے لگاتی وڈیوز کے ٹریک میں ایک ماں کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا اپنی بیٹی کو سر پر چادر کرنے کا درس دینا۔ گالیاں بکتی اور ٹھٹھہ اڑاتی وڈیوز کے ٹریک ریکارڈ کی موجودگی میں ایک بیٹا کیسے اپنے باپ کی عزت کرنا سیکھ پائے گا؟
یہ unprepared minds جس نئی اخلاقیات ، اقدار اور نئے کلچر اور طرز معاشرت کے کیے جو زمین ہموار کر رہے اور جو بیج بو رہے ہیں ، اسکی فصل کیسے اُترے گی اور اُس کا کیا پھل نکلے گا اور اُس کا کیا زائقہ ہوگا۔ شاید کسی کو بھی اسکا اندازہ نہیں۔
ایک ریاست میں سُنا ہے تین ستون ہوتے ہیں۔ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ ۔۔۔لگتا ہے کہ تینوں اس پس منظر میں پیٹھ موڈے اپنا اپنا بد ذائقہ چارہ کھانے میں مصروف ہیں۔
میں بھی کس ہٹ دھرمی سے یہ سب لکھ رہا ہوں ؛ اقبال نے تو ہماری نسل کو بھی “شاہین “ دیکھا تھا جو اسکول میں ہر دن
لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
پڑھ کر دن کا آغاز کرتا رہا۔ کیا irony ہے کہ میری زندگی کی شمع کی روشنی میں اس نوجوان نسل کو کوئی رستہ نہ دکھائی دیا نہ سُجھائی دیا۔
شاہین کیا بنتے گدھے بنے رہے اور ان گدھوں میں جو بہتر تھے جو اس معاشرہ کے زبیرا تھے ( انتظامیہ، عدلیہ و مقننہ) وہ پیٹھ موڈے اپنا اپنا بد زائقہ چارہ کھانے میں مصروف ہیں۔
غلط فہمی کوئی بھی نہیں ، اقبال کی سُن کر ہم کونسا شاہین بننے کی جستجو میں لگ گئے جو ہم گدھوں کی سُن کر آپ اپنی زندگی کی شمع کو اس قابل کرنے کی جستجو کریں گے کہ اس کی روشنی میں اگلی نسل کوئی رستہ دیکھ سکے گا۔
کاش یہ تینوں زیبرے پیچھے مُڑ کر ان گدھوں کو دیکھیں۔
سمع خراشی کی معذرت
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
بشکریہ فیس بک