سر جی! بات یہ ہے کہ خبر کا متن تو متعلقہ رپورٹر یا سب ایڈیٹر لکھتا ہے، لیکن خبر کی سرخیاں بالعموم خبر کی کمپوزنگ کے بعد، صفحہ پر دستیاب جگہ کی مناسبت سے ”کوئی اور“ لکھتا ہے۔ جو بیک وقت کئی کئی خبروں کو سرسری طور پر دیکھ کر کئی کالمی اور کئی سطری سرخی جما دیتا ہے۔ یہ کام بہت عجلت میں ہوتا ہے اور اگر ایسا کرنے والا ماہر نہ ہو یا اس سے چوک ہوجائے تو ایسی ہی ”فاش غلطیاں“ جنم لیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو سرخی کے الفاظ خبر کے متن میں موجود ہی نہیں ہوتے۔ کیونکہ سرخی خبر کی ”آخری سطور“ سے لی گئی ہوتی ہیں اور پیسٹنگ کے دوران جگہ نہ بچنے پر آخری سطور اڑا دی جاتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہاس خبر کی سرخی میری ناقص عقل میں نہیں آرہی کہ فوج کا ایک ادارہ پیسے دے کر زید حامد کو فوج ہی کے خلاف استعمال کرا رہا تھا ۔
شاید کچھ دوستوں کو اختلاف ہو ، میرا تو یہ خیال ہے کہ جس کی جو بات مدلل محسوس ہو اسے سننے میں کوئی حرج نہیں ۔
کون کتنا مسلمان ہے یہ ایمانی قوت عطا کرنے والا جانے ، کس کے پیٹ میں کتنا رزق حلال ہے ۔ یہ نظر آجاتا ہے ۔ پیٹ میں جیسا رزق ہوتا ہے ویسے ہی بو آتی ہے
اسی پر میں کہا کہ مجھے اس کے عقیدے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اس کی شدت پسندی اور متلون مزاجی کے سخت خلاف ہوں ۔ رہی ایک ٹی وی کے رویے کی بات تو آپ دیکھیئے دوسری طرف سے بھی کوئی رویہ جلد ہی سامنے آجائے گا ۔ ہدف کون بنے گا اس پر تجسس ضرور رہے گا ۔زید حامد ایک شدت پسند اور غیر متوازی ذہنیت کا آدمی ہے اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں کنفیوژن پھیلانے کا کام کر رہا ہے۔ حامد میر ایک پرانا صحافی ہے لیکن کل کئے گئے پروگرام کی میں مزمت کرتا ہوں۔ کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ اس طرح ٹی وی پر لوگوں پر تکفیر کرے۔ شدت پسندی کا جواب شدت پسندی نہیں ہے۔ زید حامد جب خود کہہ چکا ہے کہ وہ ختمِ نبوت پر یقین رکھتا ہے تو پھر ہم اور آپ کون ہوتے ہیں جو اس بات کی نفی کریں؟
یہ حامد میر کی طالبان سے گفتگو بھی فیس بک پر گردش کر رہی ہے۔۔۔