ہنستے بولتے لوگ بھی ہم کو حیراں حیراں تکتے ہیں
تو ہی بتا اے راہِ تمنا! ہم کس دیس سے آئے ہیں
تم اِک چاک گریباں دیکھ کے ہم کو رُسوا کرنے لگے
اچھا کِیا جو ہم نے تم سے دل کے چاک چھپائے ہیں
چَین کہاں لینے دیتی ہے درد کی میٹھی میٹھی آگ
ہم نے چھپ کر دامنِ شب میں کتنے اشک بہائے ہیں
ایک ذرا سی بات تھی لاکھوں افسانے مشہور ہوئے
ہم بھی تیرے پیار کے صدقے دیوانے مشہور ہوئے
ہم کو تنہا تنہا چھوڑ کے کس نگری کو چلتے ہو
چُپ چُپ چلنے والے لمحو! ٹھہرو، ہم بھی چلتے ہیں
اپنی یادوں میں بسا رکھی ہیں کیا کیا صورتیں
سنگدل، گل رو، سمن بر، شعلہ آسا صورتیں
اور ہوں گے جن کے سینے میں اجالا کر گئیں
ہم کو یارو! دے گئیں داغِ تمنا صورتیں
جب بھی تنہائی کے آنگن میں سنی قدموں کی چاپ
درد بن بن کر ابھر آئیں سراپا صورتیں
سوچ کے صحرا میں مرجھایا ہوا نخلِ خیال
چھوڑ کے ایسے گئی ہیں ہم کو تنہا صورتیں
خاک میں مِلتے دیکھے ہم نے کیا کیا راج دُلارے لوگ
کیسی سُندر سندر کلیاں، کیسے پیارے پیارے لوگ
میر ملیں تو ان سے کہیو اب بھی اس دکھ نگری میں
تیرے بہانے، اپنے فسانے، کہتے ہیں دُکھیارے لوگ
دھوپ کو اپنے گھروندوں میں سمیٹے رکھو
جانے کب برف پہاڑوں سے اترنا چاہے
کون تجھ کو میرے ہونے سے رہائی دے گا
جو ملے گا میرا ہم شکل دکھائی دے گا
رات اندھیری، بن ہے سُونا، کوئی نہیں ہے ساتھ
پوَن جھکولے پیڑ ہلائیں، تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں، یوں کیسے پوری ہو گی رات؟
برکھا رُت ہے اور جوانی، لہروں کا طوفان
پیتم ہے نادان، میرا دل رسموں سے انجان
کوئی نہیں جو بات سُجھائے، کیسے ہو سامان
بھگوان! مجھ کو راہ دکھا دے مجھ کو دے دے گیان
چپُو ٹوٹے، ناؤ پرانی دور ہے کھیون ہارا
بیری ہیں ندی کی موجیں اور پیتم اس پار
سن لے سن لے دکھ میں پکارے اک پریمی بیچارا
کیسے جاؤں کیسے پہنچوں کیسے جتاؤں پیار؟
کیسے اپنے دل سے مٹاؤں بِرہ اگن کا روگ
کیسے سجھاؤں پریم پہیلی کیسے کروں سنجوگ
بات کی گھڑیاں بیت نہ جائیں، دور ہے اس کا دیس
دور دیس ہے پیتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس
خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے
سمٹتے ہوئے، دل میں وہ سوچتا ہے
تعجب کہ نورِ ازل مِٹ چکا ہے
٭
بہت دور انسان ٹھٹکا ہوا ہے
اُسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے
مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے
تخیّل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے
ازل ایک پل میں ابد بن گیا ہے
٭
عدم اس تصور پر جھنجھلا رہا ہے
نفس دو نفس کا بہانہ بنا ہے
حقیقت کا آئینہ ٹوٹا ہوا ہے
تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے، وہ کیا ہے؟
خلا ہی خلا ہے، خلا ہی خلا ہے
افق پہ دور
کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں
کوئی قریب بارِ نور سے عیاں تو کوئی دور کہر میں نہاں
ہر ایک ایسے جیسے ساکن و خموش و پر سکون، ہر ایک
بادباں ہے ناتواں
مگر ہر ایک ہے کبھی یہاں کبھی وہاں
سکوں میں ایک جستجوئے نیم جاں
حیاتِ تازہ و شگفتہ کو لیے رواں دواں
افق پہ دور کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں
٭
قریب شورِ ساحلِ خمیدہ ہے
ہر ایک موج یوں رمیدہ ہے
کہ جیسے آبدیدہ ہے
کہ دور افق پہ کشتیاں نہیں ہیں کوئی روح پارہ پارہ
غم گزیدہ ہے
کنارِ آب سیپیاں ہی سیپیاں ہیں ایک عکسِ ناتواں
اچانک اک گھٹا اُٹھی
اچانک اس کے پار آفتاب چھپ گیا
اچانک ایک پل میں کشتیاں بھی مٹ گئیں
کنارِ آب پر کھلی ہوئی پڑی ہوئی ہیں سیپیاں ہی سیپیاں
نرم اور نازک، تند اور تیز
میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا
میرا ہے، میرا ہے جھُولا خوشیوں کا
مست، منوہر، میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا
جھُول رہی ہوں، جھُول رہی ہوں سندر جھُولا خوشیوں کا
نرم بہاؤ تند اور تیز
پیارے گھاؤ جنوں انگیز
میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا
جیون کی ندی رُک جائے
رُک جائے تو رُک جائے
رُک جائے تو رُک جائے
صرف مرے احساس کی ناؤ چلتی جائے، نرم اور تیز
گرم لہو رگ رگ میں مچلتا
ساتھ ہے سپنوں کے پیتم کا
خوشیوں کا جھُولا ہے میرا
جھُول رہی ہوں، جھُول رہی ہوں، نرم بہاؤ، نرم اور تیز
جیون کی ندی رُک جائے، رُک جائے جیون کا راگ
رُک جائے تو رُک جائے
رُک جائے تو رُک جائے
رُک جائے تو رُک جائے
میٹھا میٹھا درد مرے دل میں جاگا
جھُول رہی ہوں، جھُول
غم بِکتے ہیں
بازاروں میں
غم کافی مہنگے بِکتے ہیں
لہجے کی دُکان اگر چل جائے تو
جذبے کے گاہک
چھوٹے بڑے ہر غم کے کھلونے
منہ مانگی قیمت پہ خریدیں
میں نے
ہمیشہ اپنے غم اچھے داموں بیچے ہیں
لیکن
جو غم مجھ کو آج ملا ہے
کسی دُکاں پر رکھنے کے قابل ہی نہیں ہے
پہلی بار میں شرمندہ ہوں
یہ غم بیچ نہیں پاؤں گا
میں بنجارہ
وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں
لیکن
وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مڑ کے دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
تم سے میرا یہ ناتا بھی ٹوٹ رہا ہے
تم نے مجھ کو چھوڑا تھا جس شہر میں آ کر
وقت کا اب وہ شہر بھی مجھ سے چھوٹ رہا ہے
مجھ کو بِدا کرنے آئے ہیں
اس نگری کے سارے باسی
وہ سارے دن
جن کے کندھے پر سوتی ہے
اب بھی تمہاری زُلف کی خوشبو
سارے لمحے
جن کے ماتھے پر ہے روشن
اب بھی تمھارے لمس کا ٹیکا
نم آنکھوں سے
گُم سُم مجھ کو دیکھ رہے ہیں
مجھ کو ان کے دکھ کا پتا ہے
ان کو میرے غم کی خبر ہے
لیکن مجھ کو حکمِ سفر ہے
جانا ہو گا
وقت کے اگلے شہر مجھے اب جانا ہو گا
وقت کے اگلے شہر کے سارے باشندے
سب دن سب راتیں
جو تم سے ناواقف ہوں گے
وہ کب میری بات سُنیں گے
مجھ سے کہیں گے
جاؤ اپنی راہ لو رَاہی
ہم کو کتنے کام پڑے ہیں
جو بیتی سو بِیت گئی
اب وہ باتیں کیوں دھراتے ہو
کندھے پر یہ جھولی رکھے
کیوں پھِرتے ہو کیا پاتے ہو
میں بے چارہ
اک بنجارہ
کسی بھی آنکھ کی پتلی پہ چپکے سے
اترتی ہے، نشاں سا چھوڑ جاتی ہے
یقیں کے رنگ دھندلا کر
گماں سا چھوڑ جاتی ہے
محبت کا کوئی کلیہ، کوئی قانون
لوگوں کی سمجھ میں آ نہیں سکتا
کوئی بھی اس کے گہرے بھید ہرگز پا نہیں سکتا
چمکتی دھوپ کی ان چلچلاتی زرد تاروں سے
بُنا ہے اس کو فطرت نے
یہ سب رنگوں سے برتر ہے
مگر ہر رنگ اس میں گھل گیا گویا
چھوؤ تو ہاتھ کی پوریں گلابی ہوں
سماعت میں اترتی دھیمی دھیمی چاپ جیسی ہے
کتابِ زیست کے بھولے ہوئے سے باب جیسی ہے
محبت خواب جیسی ہے
اگر تم کو محبت تھی
تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں
ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا
درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟
وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گلاب اور میں
مرے دھانی سے آنچل کو تمہارا بڑھ کے چھو لینا
چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا
کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا
کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا
تمہیں بھی یاد تو ہو گا؟
اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟
نہیں جاناں
محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے
محبت کی نہیں تم نے
خُدا نے جب شفا تقسیم سارے زمانے میں
تمہاری انگلیوں پر اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا
کسی بیمار کو چھو لو
شفا اس کا مقدر ہے
تم ہر بیمار کو اپنا سمجھتے ہو
مداوا اس کا کرتے ہو
ہر اک بیمار کے چہرے پہ رونق تم سے قائم ہے
دعا عیسٰی کی تم کو لگ گئی شاید
تمہی امید ہو اس کی
شفا ہاتھوں پہ تم نے رب سے لکھوا لی
مسیحا ہو
محبت حادثہ ہے
حادثے سے بچ نکلنے کی
کوئی تدبیر کر لو
اس سے پہلے کہ خواب ہو جاؤ
جسے ہم حادثہ کہتے ہیں
جیون کو گھڑی بھر میں
مِٹا کر خاک کرتا ہے
کوئی الزام دھرتا ہے
کبھی معذوریوں کے جال میں قیدی
بنا کر چھوڑ دیتا ہے
یہ بندھن توڑ دیتا ہے
محبت حادثہ ہے
حادثے سے بچ نکلنے کی کوئی تدبیر کر لو
اس سے پہلےکہ خواب ہو جاؤ
تھکن سارے ہی چہروں پر
لکھی تھی اس سفر نے
وہ سر تا پا مسافت میں بندھے تھے
اچانک میٹھی میٹھی دھوپ نے انگڑائی سی لی
یہ صبح کی کرن پہلی
تھکن کو لے گئی تھی
تھکے ہاروں سے سونے کی لگن کو لے گئی تھی
نئی صبح نئی امید لے کے آ گئی تھی
مسافر کے لیے یہ عید لے کر آ گئی تھی
کسی ہاتھ پر کسی لوح پر
جو لکھا نہیں
وہی ایک حرفِ گماں ہیں ہم
خطِ گمشدہ میں لکھی گئی
کوئی اجنبی سی زباں ہیں ہم
کسی اور خطۂ درد پر
جو گزر سو گزر گیا
کوئی بے نشاں سا نشاں ہیں ہم
٭
کبھی اپنے ہونے کے واہمے سے نکل کے دنیا کو دیکھئے
تو نہ کھل سکے کہ کہاں ہیں ہم؟
مری جاں! ہماری یہ داستاں
اسی آسماں کی چھت تلے
انہی کہکشاؤں کے درمیاں
کئی لاکھ بار کہی گئی
کئی لاکھ بار سنی گئی
٭
یہ حدیثِ نغمۂ بے صدا
کبھی سرخ پھولوں کی تیز خوشبو میں رک گئی
کہیں آنسووں میں رواں ہوئی
یہ وہ شمعِ شامِ وصال ہے
جو تمام رات جلی کبھی
کبھی ایک پل میں دھواں ہوئی
کبھی روشنی کا یقیں بنی
کبھی تیرگی کا گمان ہوئی
تو جو ہو گیا اسے مان لے
کبھی کبھی ان حبس بھری راتوں میں
جب سب آوازیں سو جاتی ہیں
آدھی نیند کی گھائل سی مدہوشی میں
اک خواب انوکھا جاگتا ہے
میں دیکھتا ہوں
گرد کی اس چادر سے ادھر
جو میرے اس کے بیچ تنی ہے
وہ بھی تنہا جاگ رہا ہے
لوگ کہتے ہیں پانی میں لکڑی نہیں ڈوبتی
اور وجہ یہ بتاتے ہیں
لکڑی کا اپنا حجم
چونکہ پانی کی اتنی ہی مقدار کے
بالمقابل زیادہ نہیں
اس لئے وہ سدا
سطح آبِ رواں پہ رہے گی، مگر
ڈوبنے کا عمل اس پہ ہو گا نہیں
ازل سے یہ قدرت کا قانون ہے
اور قانون قدرت بدلتا نہیں
پہ میں سوچتا ہوں
اگر یہ حقیقت میں قانون ہے
تو تیرے غم کے دریا میں
دل کیسے ڈوبا؟
یہ آج جو کل میں زندہ تھا
وہ کل جو آج میں زندہ ہے
وہ کل جو کل کے ساتھ گیا
وہ کل جو ابھی آئندہ ہے
گزر چکے اور آنے والے جتنے کل ہیں جتنے کل تھے
ان کا کوئی وجود نہ ہوتا
ہم اور تم بے اسم ہی رہتے
آج اگر موجود نہ ہوتا
ممکن ہے آئندہ صرف اک خواب ہو جس کی
تعبیروں میں جینے والی ساری آنکھیں ڈوب چکی ہوں
(لیکن وہ خود بجھ کر بھی رخشندہ ہو)
ہو سکتا ہے
رفتہ کی دہلیز پہ ٹھہری
بھید بھری اس آنکھ کے اندر
چھپا ہوا آئندہ ہو
آئندہ کے منہ پہ پڑی یہ غیب کی چادر
اٹھ جائے تو ہو سکتا ہے
اس میں ہمارا اور تمہارا
ایک اک لمحہ زندہ ہو
(روشن اور تابندہ ہو)
لیکن یہ بھی دھیان میں رکھنا
ہو سکتا ہے آنے والے کل میں ہمارا آج نہ ہو
اور اس کی جگہ
اک ایسے وقت کا سایہ سا رقصندہ ہو، جو
ماضی حال اور مستقبل کے
تین کناروں والے اس دریا سے یکسر باہر ہو
(اور کہیں سے جنم ہو اس کا، اور کہیں پہ ظاہر ہو)
٭
ماضی حال اور مستقبل
تین کناروں والے اس دریا کے اندر
اپنی اپنی موجیں مارتے چلتے ہیں
پھر اس لہر میں ڈھلتے ہیں
جو صبحِ ازل کو اچھلی تھی اور اب تک کہیں معلق ہے
اسی معلّق لہر کے بے خود قطرے ہیں ہم
ہم اور ہم سے اربوں، کھربوں
(گزر چکے اور آنے والے)
سو اے وقت کی حیرت میں کھو جانے والی آنکھ! ٹھہر
آج کے پُل پر رک کر آگے پیچھے دیکھ
روشنی اور تاریکی شاید، ایک ہی ڈال کے پتے ہیں
لمحوں کا یہ فرق نظر کا دھوکہ ہے
وقت کی اس نا وقتی کے سیلاب میں شاید
آج ہی واحد لمحہ ہے
عمرِ رواں کی دہشت میں کھو جانے والی آنکھ ٹھہر
بانٹ کے کھاؤ، اس میں، بانٹ کے بوجھ اٹھاؤ
جس رستے میں سب کا سکھ ہو، وہ رستہ اپناؤ
اس تعلیم سے بڑھ کر جگ میں کوئی تعلیم نہیں
کہہ گئے فادر ابراہیم
کتے سے کیا بدلہ لینا گر کتے نے کاٹا
تم نے گر کتے کو کاٹا، کیا تھوکا کیا چاٹا
تم انسان ہو یارو، اپنی کچھ تو کرو تعظیم
کہہ گئے فادر ابراہیم
جھوٹ کے سر پر تاج بھی ہو تو جھوٹ کا بھانڈا پھوڑو
سچ چاہے سولی چڑھوا دے، سچ کا ساتھ نہ چھوڑو
کل وہ سچ امرت ہو گا، جو آج ہے کڑوا نیم
کہہ گئے فادر ابراہیم