ذرا دیکھ کے چال ستاروں کی
کوئی زائچہ کھینچ قلندر سا
کوئی ایسا جنتر منتر پڑھ
جو کر دے بخت سکندر سا
کوئی چِلہ ایسا کاٹ کہ پھر
کوئی اس کی کاٹ نہ کر پائے
کوئی ایسا دے تعویذ مجھے
وہ مجھ پر عاشق ہو جائے
کوئی فال نکال کرشمہ گر
مِری راہ میں پھول گلاب آئیں
کوئی پانی پھُوک کے دے ایسا
وہ پیئے تو میرے خواب آئیں
کوئی ایسا کالا جادو کر
جو جگمگ کر دے میرے دن
وہ کہے مبارک جلدی آ
اب جیا نہ جائے تیرے بِن
کوئی ایسی رہ پہ ڈال مجھے
جس راہ سے وہ دلدار ملے
کوئی تسبیح دم درود بتا
جسے پڑھوں تو میرا یار ملے
کوئی قابو کر بے قابو جن
کوئی سانپ نکال پٹاری سے
کوئی دھاگہ کھینچ پراندے کا
کوئی منکا اِکشا دھاری سے
کوئی ایسا بول سکھا دے نا
وہ سمجھے خوشگفتارہوں میں
کوئی ایسا عمل کرا مجھ سے
وہ جانے، جان نثار ہوں میں
کوئی ڈھونڈھ کے وہ کستُوری لا
اسے لگے میں چاند کے جیسا ہوں
جو مرضی میرے یار کی ہے
اسے لگے میں بالکل ویسا ہوں
کوئی ایسا اسمِ اعظم پڑھ
جو اشک بہا دے سجدوں میں
اور جیسے تیرا دعویٰ ہے
محبوب ہو میرے قدموں میں
پر عامل رک، اک بات کہوں
یہ قدموں والی بات ہے کیا؟
محبوب تو ہے سر آنکھوں پر
مجھ پتھر کی اوقات ہے کیا
اور عامل سن یہ کام بدل
یہ کام بہت نقصان کا ہے
سب دھاگے اس کے ہاتھ میں ہیں
جو مالک کل جہان کا ہے