اب مِری حالتِ غمِناک پہ کڑھنا کیسا
کیا ہوا مجھ کو اگر آپ نے ناشاد کیا
حادثہ ہے مگر ایسا تو المناک نہیں
یعنی اِک دوست نے اِک دوست کو برباد کیا
عبدالمحید عدم
وہ دشمن جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
ہر دوست یہاں ابرِ گریزاں کی طرح ہے
یہ شہر، یہی شہر، ہمارا بھی کبھی تھا
احمد فراز
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا مِری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
احمد فراز
فرض کرو ہم منصف ہوں، فرض کرو چوکیدار ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں، بے کار ہوں
فرض کرو یہ ڈیم سے ڈیم کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو یہ ڈیم ہو جھوٹا، فرض کرو یہ مایا ہو
یوں ہم کو حادثوں نے کیا رہزنوں کی نذر
جیسے کہ ہم تھے مالِ غنیمت بشر نہ تھے
ٹکرا کے سر کو اپنا لہو آپ چاٹتے
اچھا ہوا کہ دشت میں دیوار و در نہ تھے
اختر ہوشیارپوری
رہے دو دو فرشتے ساتھ اب انصاف کیا ہو گا
کسی نے کچھ لکھا ہو گا، کسی نے کچھ لکھا ہو گا
ملے گی شیخ کو جنت، ہمیں دوزخ عطا ہو گا
بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہو گا
اختر ہوشیارپوری
زباں تو کھول نظر تو ملا جواب تو دے
میں کتنی بار لٹا ہوں، حساب تو دے
تیرے بدن کی لکھاوٹ میں ہے اتار چڑھاؤ
میں تجھ کو کیسے پڑھوں گا مجھے کتاب تو دے
راحت اندوری
پیار اک شخص کے اقرار سے مشروط نہ کر
شرط اقرار پہ انکار بھی ہو سکتا ہے
مجھ سے دامن نہ چھڑا مجھ کو بچا کر رکھ لے
مجھ سے اک روز تجھے پیار بھی ہو سکتا ہے
خلیل الرحمٰن قمر
ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ، تم اپنے اے لالہ فام! آدھا
تو ہو یہ ثابت کہ نکلا ابرِ سیاہ سے ماہِ تمام آدھا
ہوا تو ہے تیرے ہجر میں دل ہمارا جل کر کباب ساقی
کسر اگر ہے تو اتنی ہی ہے کہ پختہ آدھا ہے، خام آدھا
درد اٹھتا ہے رگ و پے میں سرور اٹھتا ہے
حسن انگرائی جو لیتا ہے فتور اٹھتا ہے
ہم نے دیکھی ہیں وہ اٹھتی ہوئی آنکھیں فرخ
ہم کو معلوم ہے کس طور سے نور اٹھتا ہے