راشد اشرف
محفلین
چند روز قبل ڈاکٹر انصار شیخ کی زیر ادارت کراچی کے ادبی مجلے زیست کا منٹو نمبر (نومبر 2012) شائع ہوا ہے۔ ہم اسے زیست کا منٹو نمبر کے بجائے "منٹو کا زیست نمبر" بھی کہہ سکتے ہیں کہ گاہے گاہے باز خواں کے مصداق مشاہیر ادب کو یاد کرنے کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
صفحات 450 ، مجلد، یہ زیست کا چوتھا شمارہ ہے۔
اس مرتبہ تو مدیر زیست نے خوب محفل سجائی ہے۔ لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی ہے، جو نہیں ہیں ان کے مضامین پڑھ کر قیاس ہے کہ یہ لوگ منٹو پر کچھ نہ کچھ لکھ کر یہ ڈگری حاصل کرلیں گے۔ کراچی کے تین ایسے مدیران سے ہماری یاد اللہ ہے جو ادیب و مترجم بھی ہیں۔ یہ ہیں ڈاکٹر آصف فرخی، محترم اجمل کمال اور محترم مبین مرزا جو بالترتیب معیاری ادبی مجلے دنیازاد، آج اور مکالمہ شائع کرتے ہیں۔ پہلی دو شخصیات کا شمار تو ہمارے خاص کرم فرماؤں میں ہوتا ہے جن سے ملاقاتوں کا سلسلہ قائم و دائم ہے، کئی ادبی محفلوں میں ملاقات ہوتی رہی ہے البتہ ہم تاحال ایک ساتھ تینوں سے ملاقات سے محروم رہے ہیں۔ لیجیے صاحب! یہ کام مدیر زیست نے بہ احسن طریق کردیا کہ تینوں احباب کو یکجا کر، ان کے منٹو پر عمدہ مضامین ایک ساتھ شامل کردیے:
منٹو اور اردو تنقید - اجمل کمال
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا - ڈاکٹر آصف فرخی
منٹو اور انسانی بدکرداری - مبین مرزا
سائزہ غلام نبی، کہ ادبی جریدے "آئندہ" کی مدیرہ ہیں، کا مضمون "منٹو کے افسانے شہید ساز کا تجزیہ" بھی شامل ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے جناب کمال احمد رضوی کا قلم رواں ہے اور وہ یاد رفتگاں میں مصروف رہتے ہوئے مختلف ادبی پرچوں میں اپنے قیام لاہور کے ایام کی یادیں سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ قلم کی جولانی کا کیا کہنا۔ اس مرتبہ زیست کا آغآز انہی کے دلچسپ مضمون "منٹو صاحب" سے ہوا ہے۔ کل ان سے اسی مضمون کے تعلق سے بات ہورہی تھی، خاکسار اصرار کرتا رہا کہ جناب والا! یہ سلسلہ جاری رکھیے کہ ہمیں آپ کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب بنتی نظر آرہی ہے۔
فہرست مضامین میں بقیہ مضامین کے اچھوتے عنوانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ زیست میں شامل چند ایسے مضامین بھی ہیں جو پرانے ہیں اور مختلف اوقات میں ادبی جرائد کی زینت بنتے رہے ہیں۔ پرچے میں منظوم خراج تحسین بھی شامل کیے گئے ہیں۔
منٹو پر ڈاکٹریٹ کرنے والے (?) ڈاکٹر علی ثناء بخاری نے تو اپنے مضمون "سعادت حسن منٹو، کتابیات" میں منٹو پر کیے گئے کاموں کی تفصیل یکجا کردی ہے، یہ ایک ایسا مضمون ہے جو اپنے حوالاجات کے ساتھ مستند کہلانے کا حقدار ہے جس میں منٹو سے متعلق مندرجہ تفصیلات کو شامل کیا گیا ہے
:
مصروفیات
ابتدائی مطبوعہ تحریریں
قلمی آثار-مطبوعہ کتب
منٹو کی وفات کے بعد شائع ہونے والے مجموعے
آخری افسانہ
دل ہلا دینے والا افسانہ
متفرق افسانے جو وفات کے بعد شائع ہوئے
تراجم
ڈرامے
خاکے
خطوط
متفرق خطوط
ناول
دیباچہ از منٹو
مضامین کے مجموعے
متفرق مضامین
غیر مطبوعہ مضامین
ادارت
مرتبہ مجموعے
متفرق مجموعے جن میں منٹو کی تحریریں شامل ہیں
درسی/نصابی کتب جن میں منٹو کی کہانیاں شامل کی گئیں
کلیات
مترجمہ تخلیقات و تصانیف
سعادت حس منٹو سے متعلق تحقیقی کام:
مقالاجات برائے پی ایچ ڈی - اردو
مقالاجات برائے ایم فل - اردو
مقالاجات برائے ایم اے - اردو
مقالاجات برائے ایم اے - نفسیات
ابواب: مقالہ برائے پی ایچ ڈی - اردو
ابواب: مقالاجات برائے ایم اے - اردو
ابواب: مقالاجات برائے ایم اے - صحافت
منٹو پر سوانحی، تنقیدی و تحقیقی کتب
مرتبہ کتب
افسانے کی تاریخ و تنقید و نقد کی کتب میں منٹو پر مضامین
ادبی تاریخ و نقد کی کتب میں منٹو کا حوالہ
تاریخ (منٹو کا حوالہ)
رسائل جن میں "گوشہ سعادت حسن منٹو" مختص کیا گیا
رسائل کے منٹو نمبر
سعادت حسن منٹو پر مطبوعہ اہم مضامین
اہم مطبوعہ مضامین میں منٹو کا حوالہ
سمپوزیم
سمینار رپورٹ (منٹو صدی کے حوالے سے
ہم ڈاکٹر صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتے، یہ ہماری کم علمی ہے، لہذا صاحب یا صاحبہ کے لاحقے میں کوئی گڑبڑ ہوجائے تو پیشگی معافی کے خواستگار ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون کے پہلے صفحے کے حاشیے میں اس بات کی دہائی دی ہے کہ::
"دہلی کے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے 2005 میں کلیات منٹو کی کئی جلدیں شائع کیں جن پر محقق و مدون کے طور پر ایک صاحب ہمایوں اشرف کا نام درج کیا گیا۔ ہمایوں اشرف صاحب نے راقم کی اس (سعادت حسن منٹو-سوانح اور ادبی خدمات۔پنجاب یونیورسٹی-1984) تحقیق کو محض چوری ہی نہیں کیا، بلکہ قزاق کی صورت اس پر اپنا نام کندہ کرکے اسے ان تمام جلدوں کی زینت بنایا ہے۔
"
پاکستان اور ہندوستان کو صومالی قزاقوں کی جانب سے یرغمال بنانے کے واقعات سے تو اہل پاکستان و اہل ہند بخوبی واقف ہیں، ماضی قریب میں ایسی دل ہلادینے والے تفصیلات آتی رہی کہ نہ پوچھیے۔ جانتے تو ہم ہمایوں اشرف صاحب کو بھی نہیں ہیں (شاید ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کوئی صاحب بتا سکیں)، البتہ ڈاکٹر ثناء کا انہیں ایک اہم ادبی پرچے میں یوں کھلم کھلا قزاق کا خطاب دینے سے ایک خوف سا لاحق ہوا ہے، آنکھوں کے سامنے کچھ ایسی تصویر ابھری ہے کہ ہمایوں صاحب سر پر رنگین کپڑا باندھے، رخساروں پر سیاہ دھاریاں بنائے، آنکھوں کے گرد سرمہ جمائے، ڈاکٹر ثناء کی "سعادت حسن منٹو-سوانح اور ادبی خدمات" پر اپنا نام کندہ کرا، کلیات منٹو کو ہاتھ میں تھامے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے عین سامنے کھڑے اسے لہرا رہے ہیں۔ وللہ اعلم بالصواب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس تن لگے سو تن جانے۔
اس کے علاوہ منٹو نمبر میں "میرا آقا" نامی مضمون غلام رسول کا تحریر کردہ ہے جو منٹو کے ذاتی ملازم تھے۔
منٹو کے زیست نمبر میں ایک مضمون خاصا "مردانہ" ہے جسے یہاں پیش کرنے پر ہماری "ضمانت ضبط" ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ ہے بلونت گارگی کا "حسین چہرے-سعادت حسن منٹو" جسے ہمارے خیال سے طلبگاروں کو فردا" فردا" بلکہ مردا" مردا" بھیجنا مناسب ہوگا۔
بلونت گارگی کا یہ مضمون ہے مگر خاصے کی چیز۔
زیست کے حصول کے لیے ۔۔۔۔
صفحات 450 ، مجلد، یہ زیست کا چوتھا شمارہ ہے۔
اس مرتبہ تو مدیر زیست نے خوب محفل سجائی ہے۔ لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی ہے، جو نہیں ہیں ان کے مضامین پڑھ کر قیاس ہے کہ یہ لوگ منٹو پر کچھ نہ کچھ لکھ کر یہ ڈگری حاصل کرلیں گے۔ کراچی کے تین ایسے مدیران سے ہماری یاد اللہ ہے جو ادیب و مترجم بھی ہیں۔ یہ ہیں ڈاکٹر آصف فرخی، محترم اجمل کمال اور محترم مبین مرزا جو بالترتیب معیاری ادبی مجلے دنیازاد، آج اور مکالمہ شائع کرتے ہیں۔ پہلی دو شخصیات کا شمار تو ہمارے خاص کرم فرماؤں میں ہوتا ہے جن سے ملاقاتوں کا سلسلہ قائم و دائم ہے، کئی ادبی محفلوں میں ملاقات ہوتی رہی ہے البتہ ہم تاحال ایک ساتھ تینوں سے ملاقات سے محروم رہے ہیں۔ لیجیے صاحب! یہ کام مدیر زیست نے بہ احسن طریق کردیا کہ تینوں احباب کو یکجا کر، ان کے منٹو پر عمدہ مضامین ایک ساتھ شامل کردیے:
منٹو اور اردو تنقید - اجمل کمال
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا - ڈاکٹر آصف فرخی
منٹو اور انسانی بدکرداری - مبین مرزا
سائزہ غلام نبی، کہ ادبی جریدے "آئندہ" کی مدیرہ ہیں، کا مضمون "منٹو کے افسانے شہید ساز کا تجزیہ" بھی شامل ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے جناب کمال احمد رضوی کا قلم رواں ہے اور وہ یاد رفتگاں میں مصروف رہتے ہوئے مختلف ادبی پرچوں میں اپنے قیام لاہور کے ایام کی یادیں سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ قلم کی جولانی کا کیا کہنا۔ اس مرتبہ زیست کا آغآز انہی کے دلچسپ مضمون "منٹو صاحب" سے ہوا ہے۔ کل ان سے اسی مضمون کے تعلق سے بات ہورہی تھی، خاکسار اصرار کرتا رہا کہ جناب والا! یہ سلسلہ جاری رکھیے کہ ہمیں آپ کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب بنتی نظر آرہی ہے۔
فہرست مضامین میں بقیہ مضامین کے اچھوتے عنوانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ زیست میں شامل چند ایسے مضامین بھی ہیں جو پرانے ہیں اور مختلف اوقات میں ادبی جرائد کی زینت بنتے رہے ہیں۔ پرچے میں منظوم خراج تحسین بھی شامل کیے گئے ہیں۔
منٹو پر ڈاکٹریٹ کرنے والے (?) ڈاکٹر علی ثناء بخاری نے تو اپنے مضمون "سعادت حسن منٹو، کتابیات" میں منٹو پر کیے گئے کاموں کی تفصیل یکجا کردی ہے، یہ ایک ایسا مضمون ہے جو اپنے حوالاجات کے ساتھ مستند کہلانے کا حقدار ہے جس میں منٹو سے متعلق مندرجہ تفصیلات کو شامل کیا گیا ہے
:
مصروفیات
ابتدائی مطبوعہ تحریریں
قلمی آثار-مطبوعہ کتب
منٹو کی وفات کے بعد شائع ہونے والے مجموعے
آخری افسانہ
دل ہلا دینے والا افسانہ
متفرق افسانے جو وفات کے بعد شائع ہوئے
تراجم
ڈرامے
خاکے
خطوط
متفرق خطوط
ناول
دیباچہ از منٹو
مضامین کے مجموعے
متفرق مضامین
غیر مطبوعہ مضامین
ادارت
مرتبہ مجموعے
متفرق مجموعے جن میں منٹو کی تحریریں شامل ہیں
درسی/نصابی کتب جن میں منٹو کی کہانیاں شامل کی گئیں
کلیات
مترجمہ تخلیقات و تصانیف
سعادت حس منٹو سے متعلق تحقیقی کام:
مقالاجات برائے پی ایچ ڈی - اردو
مقالاجات برائے ایم فل - اردو
مقالاجات برائے ایم اے - اردو
مقالاجات برائے ایم اے - نفسیات
ابواب: مقالہ برائے پی ایچ ڈی - اردو
ابواب: مقالاجات برائے ایم اے - اردو
ابواب: مقالاجات برائے ایم اے - صحافت
منٹو پر سوانحی، تنقیدی و تحقیقی کتب
مرتبہ کتب
افسانے کی تاریخ و تنقید و نقد کی کتب میں منٹو پر مضامین
ادبی تاریخ و نقد کی کتب میں منٹو کا حوالہ
تاریخ (منٹو کا حوالہ)
رسائل جن میں "گوشہ سعادت حسن منٹو" مختص کیا گیا
رسائل کے منٹو نمبر
سعادت حسن منٹو پر مطبوعہ اہم مضامین
اہم مطبوعہ مضامین میں منٹو کا حوالہ
سمپوزیم
سمینار رپورٹ (منٹو صدی کے حوالے سے
ہم ڈاکٹر صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتے، یہ ہماری کم علمی ہے، لہذا صاحب یا صاحبہ کے لاحقے میں کوئی گڑبڑ ہوجائے تو پیشگی معافی کے خواستگار ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون کے پہلے صفحے کے حاشیے میں اس بات کی دہائی دی ہے کہ::
"دہلی کے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے 2005 میں کلیات منٹو کی کئی جلدیں شائع کیں جن پر محقق و مدون کے طور پر ایک صاحب ہمایوں اشرف کا نام درج کیا گیا۔ ہمایوں اشرف صاحب نے راقم کی اس (سعادت حسن منٹو-سوانح اور ادبی خدمات۔پنجاب یونیورسٹی-1984) تحقیق کو محض چوری ہی نہیں کیا، بلکہ قزاق کی صورت اس پر اپنا نام کندہ کرکے اسے ان تمام جلدوں کی زینت بنایا ہے۔
"
پاکستان اور ہندوستان کو صومالی قزاقوں کی جانب سے یرغمال بنانے کے واقعات سے تو اہل پاکستان و اہل ہند بخوبی واقف ہیں، ماضی قریب میں ایسی دل ہلادینے والے تفصیلات آتی رہی کہ نہ پوچھیے۔ جانتے تو ہم ہمایوں اشرف صاحب کو بھی نہیں ہیں (شاید ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کوئی صاحب بتا سکیں)، البتہ ڈاکٹر ثناء کا انہیں ایک اہم ادبی پرچے میں یوں کھلم کھلا قزاق کا خطاب دینے سے ایک خوف سا لاحق ہوا ہے، آنکھوں کے سامنے کچھ ایسی تصویر ابھری ہے کہ ہمایوں صاحب سر پر رنگین کپڑا باندھے، رخساروں پر سیاہ دھاریاں بنائے، آنکھوں کے گرد سرمہ جمائے، ڈاکٹر ثناء کی "سعادت حسن منٹو-سوانح اور ادبی خدمات" پر اپنا نام کندہ کرا، کلیات منٹو کو ہاتھ میں تھامے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے عین سامنے کھڑے اسے لہرا رہے ہیں۔ وللہ اعلم بالصواب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس تن لگے سو تن جانے۔
اس کے علاوہ منٹو نمبر میں "میرا آقا" نامی مضمون غلام رسول کا تحریر کردہ ہے جو منٹو کے ذاتی ملازم تھے۔
منٹو کے زیست نمبر میں ایک مضمون خاصا "مردانہ" ہے جسے یہاں پیش کرنے پر ہماری "ضمانت ضبط" ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ ہے بلونت گارگی کا "حسین چہرے-سعادت حسن منٹو" جسے ہمارے خیال سے طلبگاروں کو فردا" فردا" بلکہ مردا" مردا" بھیجنا مناسب ہوگا۔
بلونت گارگی کا یہ مضمون ہے مگر خاصے کی چیز۔
زیست کے حصول کے لیے ۔۔۔۔