فاخر
محفلین
زین عباس نامی نوجوان شاعر جولاہور کا رہائشی تھا اور ایم بی بی ایس کا طالب علم بھی تھا، علاوہ ازیں وہ ترقی پسند بھی تھا، اطلاع کے مطابق اُس نے گزشتہ دِنوں اپنی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں خودکشی کرلی ۔ خودکشی کی اَسباب کیا تھے ، اللٰہ ہی بہتر جانے ۔ اس سے قبل میں نے زین عباس کا نام نہیں سنا تھا اور سنتا بھی کیسے ؟ بیچ میں سرحد حائل تھی ۔ اور تو اور وُہ اِس محفل کا رکن بھی نہیں تھا، جس کے ذریعہ کسی طرح کی شناسائی ہوسکے ۔ اس کی خودکشی کے سلسلے میں ایک فیس بک صارف سہل شعیب ہمام لکھتا ہے :
زیر نظر تصویر فیس بک صارفین کے مطابق زین عباس کی ہے ۔
https://www.facebook.com/photo/?fbi...cv-VIgkPKfnYR5LxSS-t9xQOh0iaywDZg&__tn__=EH-R
’’زین عباس چپ چاپ چلا گیا۔جانے کیا غم تھا اور کیا سبب ،آج خود کشی کر لی ۔وہ ترقی پسندی کا پرچارک اور خوب صورت شاعر زندگی کے نئے معانی ڈھونڈنے فصیل وقت کی دوسری طرف چل پڑا۔زین ترقی پسند نظریات کا حامل نوجوان تھا اور نظم کا بہت عمدہ شاعر تھا ۔ اس کے والد فضل عباس پیشہ کے اعتبار سے حکیم تھے۔لاہور کی ادبی محافل میں ذین عباس خاصا فعال تھا ،خاص کر انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے۔ ایم بی بی ایس کا اسٹوڈنٹ تھا ،آج صبح ہاسٹل میں خود کشی کر لی‘‘۔
ایک دوسرے صارف آصفہ عنبریں قاضی لکھتی ہیں : ’’کل رات ایک اور حساس انسان زندگی سے hands up کر گیا ، نوجوان ڈاکٹر، اُبھرتا شاعر اور ادب دوست انسان " زین عباس" جس نے رات اپنے کمرے کی دیوار پہ لکھا " یہ راقم کی آخری رات ہے '" اس کی ماں ، اس کے باپ پہ کیا گزری ہوگی، تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ خود کشی اتنی عام کیوں ہوگئی ہے؟ ڈیپریشن اور مایوسی کی وہ کون سی اسٹیج ہے ؟جب مو ت میں زیادہ کشش محسوس ہونے لگتی ہے؟ مایوس انسان چہرے سے نہیں پہچانا جاتا کیا ؟ اس نوجوان کی مایوسی تو اس کی آخری نظموں سے جھلک رہی تھی ، کسی دوست نے توجہ نہیں دی ؟ ہم دلاسے اور تسلی پر اکتفا کیوں کرتے ہیں ؟ یہ کیس نفسیاتی معالج کے بھی ہوتے ہیں ؟ حساسیت کے ماروں کو ہم سائیکاٹرسٹ کے پاس بروقت کیوں نہیں لے جاتے ؟شاید وہ ان کے دل کا احوال معلوم کر لیں ، مسائل کی جڑ تک پہنچ جائیں۔ والدین ہی ان بچوں کے اندر جھانکنا سیکھ لیں،اولاد پنکھوں پہ جھولنے کے لیے جوان نہیں کی جاتیں‘‘۔
وہیں فیس بک صارف محمد ولی صادق لکھتے ہیں: بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ تصویر میں نظر آنے والا یہ نوجوان شاعر زین عباس خود کشی کر چکا ہے، اس سے پہلے ثروت حسین اور شکیب جلالی سمیت کئی شعرا و شاعرات زندگی سے مایوس ہوکر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔شعراء میں خود کشی کا یہ سلسلہ بے حد افسوسناک عمل ہے۔شاعر تو قوم کا مسیحا ہوتا ہے جو اپنے الفاظ سے زندگی کے سفر سے تھکے ہوئے لوگوں میں ایک نئی روح پھونکتا ہے، نیا حوصلہ بخشتا ہے، شاعر تو قوم کے نو جوانوں کے لیے منزل کا تعین کرتا ہے، شاعر اتنا بزدل اور ڈرپوک نہیں ہوتا ہے کہ گردشِ حالات سے گھبرا کر خودکشی کر بیٹھے۔شاعر تو عاشق ہوتا ہے اور خالق حقیقی سے محبت کرنے والا عاشق اپنے محبوب پر قربان ہوتا ہے ،نہ کہ محبوب کی دی ہوئی زندگی سے بے زار ہو جائے، وہ کیسا عاشق ہوگا جسے محبوب کا دیا ہوا ہر درد عزیز نہ ہو؟ عاشق تو محبوب کا دیا ہوا ہر درد سینے سے لگاتا ہے دامن نہیں چھڑاتا۔
بقول فراز:
یہ قناعت ہے محبت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے ‘‘
زین عباس نظم کا شاعر تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی پسندی کی طرف بھی مائل تھا؛ لیکن خودکشی جیسے اتنہائی قدم سے ہر کوئی حیرت زدہ ہے ۔ کیا شاعری اور شاعر اب مایوسی کا ایک مجموعہ ہوچکا ہے؟ یا پھر ہمارا سماج شاعر فن کار یا ادیب کو بے موت مرنے کے لئے چھوڑ چکا ہے؟ شاعر تو قوم کا حوصلہ بڑھاتا ہے ۔ آگے بڑھنے کے لئے مہمیز کرتا ہے؛ لیکن خیر! وقت موعود آچکا تھا اس لئے اس عالم رنگ و بو سے کوچ کرگیا؟ ۔’’ زندگی، ریت کا بے جان گھروندہ سمجھو---پل میں ٹوٹا ہوا بکھرا ہو پاؤگے مجھے ‘‘ ۔ اس سے قبل شکیب جلالی جیسا شاعر ذہنی تناؤ میں آکر اپنی جان گنوا چکا ہے اور اس جیسے دیگر شاعروں نے بھی خودکشی کی ہے ۔ آخر ہر تناؤ، اُلجھن کا واحد حل ’خودکشی‘ ہی ہے؟۔ ہمارا معاشرہ بہت دور جا نکلا ہے؟ کاش واپس لوٹ آئے ۔بقول فراز:
یہ قناعت ہے محبت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے ‘‘
زیر نظر تصویر فیس بک صارفین کے مطابق زین عباس کی ہے ۔
https://www.facebook.com/photo/?fbi...cv-VIgkPKfnYR5LxSS-t9xQOh0iaywDZg&__tn__=EH-R