ز عشق دوست ہر ساعت دُرونِ نار می رَقصم

ملک حبیب

محفلین
حضرت سید عُثمان مروندی معروف بہ لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی مندرجہ ذیل غزل کے انداز اور رنگ و آہنگ میں اور انہی قوافی اور ردیف کے ساتھ حضرت خواجہ عُثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت 617 ہجری) نے بھی ایک غزل کہی (یاد رہے کہ حضرت خواجہ عُثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت حضرت شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ سے قریباً اَسّی سال بعد ہوئی ) جو فارسی ادب میں بعض حوالوں سے زیادہ شہرت رکھتی ہے لیکن چونکہ حضرت شہباز قلندر کی یہ غزل پہلے کی ہے اس لئے اس کا مقام و مرتبہ اپنی جگہ مُسلّم ہے۔چونکہ دونوں غزلیں ایک ہی آہنگ اور رِدھم میں ہیں اس لئے قوال حضرات جب گاتے ہیں تو دونوں غزلیات کے اشعار کو مِلا کر پڑھ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ غزل مُلاحظہ ہو۔۔۔

ز عشقِ دوست ہر ساعت دُرونِ نار می رَقصم
گَہے بَر خاک می غلطم گَہے بَر خارمیں رَقصم

میں اپنے محبوب کے عشق میں پر لحظہ آتش عشق میں رقص کرتا ہوں، کبھی خاک پر لوٹتا ہوں اور کبھی کانٹوں پر رقص کرتا ہوں ۔

شُدم بدنام دَر عِشقش بیا اے پارسا ہم بِیں
نَمی تَرسم ز رُسوائی سَرِ بازار می رَقصم

میں اس کے عشق میں بدنام ہو گیا ہوں۔ لیکن اے مرے پارسا دوست آ، کیونکہ میں رُسوائی سے نہیں ڈرتا میں تو سَرِبازار رقص کرتا ہوں۔

بیا اے مطرب و ساقی سماع و ذوق را دردہ
کہ من از شادئ وصلش قلندر وار می رقصم

اے مطرب و ساقی آ، سماع اور ذوق سے مجھے نہال کر دے میں اب اس کے وَصل کی خوشی میں قَلندر کی مانند قلندرانہ رَقص کرتا ہوں۔

مَرا مَخلوق می گوید گَدا چَنداں چہ می رَقصی
بہ دِل داریم اسرارے اَزاں اسرار می رَقصم

مجھے رقص کرتے ہوئے دیکھ کر مخلوق کہتی ہے کہ یہ فقیر گداگر کیا رقص کرتا رہتا ہے یہ تو مرے دِل کے اسرار ہیں اور انہی اسرار کے باعث میں رقص کرتا ہوں۔

خلائق گَر کُند بَر مَن مَلامت زِیں سَبب ہَر دَم
مَگر نازم بَر ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رَقصم

اگرچہ لوگ اس سبب سے ہر دم میری ملامت کرتے ہیں کہ میں ہر وقت رقص کرتا رہتا ہوں لیکن یہ سب میرے ذوق کی بدولت ہے اور مجھے اپنے ذوق پر ناز ہے کہ میں اپنے محبوب کے سامنے رَقص کرتا ہوں۔

اَگر صوفی شَوی یارم تا ایِں خرقۂ می پوشیم
چہ خوش زنّار بر بستم بہ ایں دیدار می رَقصم

اگر صوفی میرا یار ہو جائے تو میں اس کی طرح ہی گدڑی پوش ہو جاؤں یعنی اُسی کے رنگ میں رَنگا جاؤں۔ لیکن عشق نے میری ایسی صورت بنا ڈالی کہ میں نے زنار پوشی کی یک رنگی اخیتار کر لی ہے اور اب اسی زنار پوشی کی حالت میں دیدارِ محبوب کی خاطر رَقص کرتا ہوں۔

چو یارم جلوہ بہ نماید مرا مدہوش می سازد
نَمی دارم کہ آخر چُوں دَمِ دیدار می رَقصم

جَب میرا یار اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو مجھے مَدہوش و سَرشار کَر دیتا ہے تو پھر ایسی صورت میں یہ نہیں جانتا کہ پھر میں دیدار کے وقت کیوں رقص کرتا ہوں۔

حبابِ دوستاں دَر دِل کُجا ایں قُلقلِ مِینا
کہ تو کم نغمہ می سنجی و من بسیار می رَقصم

دوستوں کے دِل میں مینا کی قُلقُل کی کیفیت بَھلا کہاں ہے( کہ ان کے حلقۂ دِل کے اندر صُراحی میں سے شراب اُنڈیلنے کی صدائے خوش پیدا ہو۔) کہ تُو تو کم نغمہ سرائی کرے گا لیکن میں بے پناہ رَقص کروں گا یا کرتا رہوں گا،اس شعر میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ قُلقُل کا وہ نغمہ اگرچہ دھیما اور تھوڑا ہی ہوتا ہے لیکن وہ جس قدر خفیف اور کم ہوتا ہے میں اسی قدر زیادہ رقص کرتا ہوں۔۔۔۔

تُو آں قاتل کہ اَز بہرِ تماشا خون می ریزی
مَن آں بِسمل کہ زیرِ خَنجرِ خونخوار می رَقصم

تُو وہ قاتل ہے جو صرف تماشا اور نظارہ کے لئے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ گھائل ہوں کہ خنجرِ خونخوار کے نیچے بھی رَقص کرتا ہوں۔

خوشا رِندی کہ پامالش کُنم صد پارسائی را
رَہے تَقوٰی کہ مَن با جُبّہ و دستار می رَقصم

میری یہ رِندی بھی کیا خوب ہے کہ اس پر سینکڑوں پارسائیوں کو پامال و قربان کر دوں، اور مَرحبا یہ تقوٰی کہ میں جُبّہ و دستار سمیت رَقص کرتا ہوں۔

تَپش حالت چو می آرد بروئی شُعلہ می غَلطم
خلش چُوں لَذتی بَخشد تہ نوکِ خار می رَقصم

تَپش جو حالت مجھ پر واردکرتی ہے میں اس سے اور بھی شعلے کی طرح تَڑپتا اور مَچلتا ہُوں، اور خلش اور چُبھن جَب مُجھے لَذت دیتی ہے تو میں کانٹے کی نوک کے نیچے بھی ناچتا ہوں۔۔۔

بیا جاناں تماشا کُن کہ دَر انبوہِ جانبازاں
بَصد سامانِ رُسوائی سَرِ بازار می رَقصم

اے پیارے محبوب آ جانثاروں کے اس ہجوم میں میں رُسوائی اور بدنامی کے سینکڑوں سامان لئے سَرِ بازار رَقص کرتا ہوں۔

مَنم عُثمان مَروندی کہ یارِ خواجہ منصورم
نہ لرزم از ملامت آں کہ مَن بَر دار می رَقصم

میں عُثمان مروندی خواجہ منصور کا دوست ہوں، اور میں کسی ملامت سے لرزتا اور گھبراتا نہیں ہوں مجھے لوگ ملامت کرتے ہیں اور میں دار پر رَقص کرتا ہوں۔

کلام حضرت شیخ عُثمان مروندی معروف بہ لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
حضرت سید عُثمان مروندی معروف بہ لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی مندرجہ ذیل غزل کے انداز اور رنگ و آہنگ میں اور انہی قوافی اور ردیف کے ساتھ حضرت خواجہ عُثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ (ولادت 617 ہجری) نے بھی ایک غزل کہی (یاد رہے کہ حضرت خواجہ عُثمان ہارونی رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت حضرت شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ سے قریباً اَسّی سال بعد ہوئی ) جو فارسی ادب میں بعض حوالوں سے زیادہ شہرت رکھتی ہے لیکن چونکہ حضرت شہباز قلندر کی یہ غزل پہلے کی ہے اس لئے اس کا مقام و مرتبہ اپنی جگہ مُسلّم ہے۔چونکہ دونوں غزلیں ایک ہی آہنگ اور رِدھم میں ہیں اس لئے قوال حضرات جب گاتے ہیں تو دونوں غزلیات کے اشعار کو مِلا کر پڑھ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ غزل مُلاحظہ ہو۔۔۔
ز عشقِ دوست ہر ساعت دُرونِ نار می رَقصم
گَہے بَر خاک می غلطم گَہے بَر خارمیں رَقصم
میں اپنے محبوب کے عشق میں پر لحظہ آتش عشق میں رقص کرتا ہوں، کبھی خاک پر لوٹتا ہوں اور کبھی کانٹوں پر رقص کرتا ہوں ۔
شُدم بدنام دَر عِشقش بیا اے پارسا ہم بِیں
نَمی تَرسم ز رُسوائی سَرِ بازار می رَقصم
میں اس کے عشق میں بدنام ہو گیا ہوں۔ لیکن اے مرے پارسا دوست آ، کیونکہ میں رُسوائی سے نہیں ڈرتا میں تو سَرِبازار رقص کرتا ہوں۔
بیا اے مطرب و ساقی سماع و ذوق را دردہ
کہ من از شادئ وصلش قلندر وار می رقصم
اے مطرب و ساقی آ، سماع اور ذوق سے مجھے نہال کر دے میں اب اس کے وَصل کی خوشی میں قَلندر کی مانند قلندرانہ رَقص کرتا ہوں۔
مَرا مَخلوق می گوید گَدا چَنداں چہ می رَقصی
بہ دِل داریم اسرارے اَزاں اسرار می رَقصم
مجھے رقص کرتے ہوئے دیکھ کر مخلوق کہتی ہے کہ یہ فقیر گداگر کیا رقص کرتا رہتا ہے یہ تو مرے دِل کے اسرار ہیں اور انہی اسرار کے باعث میں رقص کرتا ہوں۔
خلائق گَر کُند بَر مَن مَلامت زِیں سَبب ہَر دَم
مَگر نازم بَر ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رَقصم
اگرچہ لوگ اس سبب سے ہر دم میری ملامت کرتے ہیں کہ میں ہر وقت رقص کرتا رہتا ہوں لیکن یہ سب میرے ذوق کی بدولت ہے اور مجھے اپنے ذوق پر ناز ہے کہ میں اپنے محبوب کے سامنے رَقص کرتا ہوں۔
اَگر صوفی شَوی یارم تا ایِں خرقۂ می پوشیم
چہ خوش زنّار بر بستم بہ ایں دیدار می رَقصم
اگر صوفی میرا یار ہو جائے تو میں اس کی طرح ہی گدڑی پوش ہو جاؤں یعنی اُسی کے رنگ میں رَنگا جاؤں۔ لیکن عشق نے میری ایسی صورت بنا ڈالی کہ میں نے زنار پوشی کی یک رنگی اخیتار کر لی ہے اور اب اسی زنار پوشی کی حالت میں دیدارِ محبوب کی خاطر رَقص کرتا ہوں۔
چو یارم جلوہ بہ نماید مرا مدہوش می سازد
نَمی دارم کہ آخر چُوں دَمِ دیدار می رَقصم
جَب میرا یار اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو مجھے مَدہوش و سَرشار کَر دیتا ہے تو پھر ایسی صورت میں یہ نہیں جانتا کہ پھر میں دیدار کے وقت کیوں رقص کرتا ہوں۔
حبابِ دوستاں دَر دِل کُجا ایں قُلقلِ مِینا
کہ تو کم نغمہ می سنجی و من بسیار می رَقصم
دوستوں کے دِل میں مینا کی قُلقُل کی کیفیت بَھلا کہاں ہے( کہ ان کے حلقۂ دِل کے اندر صُراحی میں سے شراب اُنڈیلنے کی صدائے خوش پیدا ہو۔) کہ تُو تو کم نغمہ سرائی کرے گا لیکن میں بے پناہ رَقص کروں گا یا کرتا رہوں گا،اس شعر میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ قُلقُل کا وہ نغمہ اگرچہ دھیما اور تھوڑا ہی ہوتا ہے لیکن وہ جس قدر خفیف اور کم ہوتا ہے میں اسی قدر زیادہ رقص کرتا ہوں۔۔۔۔
تُو آں قاتل کہ اَز بہرِ تماشا خون می ریزی
مَن آں بِسمل کہ زیرِ خَنجرِ خونخوار می رَقصم
تُو وہ قاتل ہے جو صرف تماشا اور نظارہ کے لئے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ گھائل ہوں کہ خنجرِ خونخوار کے نیچے بھی رَقص کرتا ہوں۔
خوشا رِندی کہ پامالش کُنم صد پارسائی را
رَہے تَقوٰی کہ مَن با جُبّہ و دستار می رَقصم
میری یہ رِندی بھی کیا خوب ہے کہ اس پر سینکڑوں پارسائیوں کو پامال و قربان کر دوں، اور مَرحبا یہ تقوٰی کہ میں جُبّہ و دستار سمیت رَقص کرتا ہوں۔
تَپش حالت چو می آرد بروئی شُعلہ می غَلطم
خلش چُوں لَذتی بَخشد تہ نوکِ خار می رَقصم
تَپش جو حالت مجھ پر واردکرتی ہے میں اس سے اور بھی شعلے کی طرح تَڑپتا اور مَچلتا ہُوں، اور خلش اور چُبھن جَب مُجھے لَذت دیتی ہے تو میں کانٹے کی نوک کے نیچے بھی ناچتا ہوں۔۔۔
بیا جاناں تماشا کُن کہ دَر انبوہِ جانبازاں
بَصد سامانِ رُسوائی سَرِ بازار می رَقصم
اے پیارے محبوب آ جانثاروں کے اس ہجوم میں میں رُسوائی اور بدنامی کے سینکڑوں سامان لئے سَرِ بازار رَقص کرتا ہوں۔
مَنم عُثمان مَروندی کہ یارِ خواجہ منصورم
نہ لرزم از ملامت آں کہ مَن بَر دار می رَقصم
میں عُثمان مروندی خواجہ منصور کا دوست ہوں، اور میں کسی ملامت سے لرزتا اور گھبراتا نہیں ہوں مجھے لوگ ملامت کرتے ہیں اور میں دار پر رَقص کرتا ہوں۔
کلام حضرت شیخ عُثمان مروندی معروف بہ لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ
-------------------------------------------
آپ کا فونٹ نستعلیق نہیں آرہا تھا ۔
بہت اچھے اشعار ہیں ۔شکریہ
 
Top