loneliness4ever
محفلین
سائباں تلے جھلستی زمیں
از س ن مخمور
اگر مجھے زندگی اور موت پر اختیار ہوتا تو میں اپنے بھائی اور باپ کو زندگی سے محروم کر دیتی
یہ کہہ کرثمینہ نے اپنا مرجھا یا گلاب جیسا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
کاش میری ماں کی جگہ میرا باپ مر جاتا، کاش کسی نامعلوم فرد کی گولی میرے بھائی سے اس کی زندگی چھین لیتی
اس کے ہر لفظ سے غم روح چھلک رہا تھا، اس کا جوان اور خوبرو بدن رواں رواں زخمی ہو چلا تھا، اور روح تلک میں وہ زخم زہر بن کر اتر چکے تھے جن کی بدولت آج اس کے لبوں پرسے یہ باتیں اڑ کرتماش بین محلے داروں کی بے حس سماعت میں کہیں گم ہو رہی تھیں، مگر اس کو جیسے اب ان باتوں کی پرواہ نہ تھی ، وہ مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی مگر آج وہ مجھے اپنے آپ سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔ اس کا گھر اس وقت محلے داروں سے بھرا ہوا تھا، باہر گلی میں پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، سیاسی جماعت سے منسلک کچھ لڑکے میڈیا کے نمائندوں کو بلانے کی باتیں کر رہے تھے، مگر وہ لڑکے جو بچپن سے اس گھر اور گھر کے مکینوں سے واقف تھے آڑے آ رہے تھے، سیاسی جماعت کی علاقائی کمیٹی کے وہ لڑکے اس وقت بہت بردباری کا ثبوت دے رہے تھے، بچپن کی محلے داری اور دوستی نبھانے کا یہ ہی وقت تھا، گھر کی فضا میں ثمینہ کے رونے کی آواز گونج رہی تھی میں نے اس کو پڑھایا تھا اس لئے مجھ کو نمایاں جگہ ملی تھی ، آپا نسیمہ اس کو چپ کروا رہی تھیں مگر ہچکیوں، سسکیوں، اور رونے کا نہ تھمنے والا سلسلہ رواں تھا۔ اس کے بال کھلے ہوئے بنا دوپٹے کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، آپا نسیمہ اس کو اپنی سفید چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی تو اس نے جیسے نوچ کر چادر اتار پھینکی
مت کرو یہ تماشے، نہیں چاہئے مجھے چادر، یہ طور طریقہ تو ان کا ہوتا ہے جن کا باپ سائبان ہوتا ہے جو خود تو جل جاتا ہے مگر اپنے تلے آگ کی تپش تک آنے نہیں دیتا، اس نے تو خود مجھے ہی جلا دیا، یہ چادر تو ان کے لئے ہوتی ہے جن کے بھائی ان کے گرد تمام عمر خار بن کر ایک محافظ کی مانند زندگی گزار دیتے ہیں، آپا وہ تو چور تھے چوری کر لیا سب کچھ انھوں نے، کاش ہر ماں کے مرنے پر اس کی بیٹی کو بھی اللہ موت دے دے مگر ایسی موت نہِیں جیسی موت اس نے مجھے دی ہے، آپا نہیں چاہئے مجھے چادر، اب کیا ملے گا اسکو اوڑھنے سے مجھکو
میرا دماغ بھک ہو گیا تھا، خالہ کا چالسواں ہوئے مہینہ ہی ہوا تھا، عمر بھر کے محافظ ایک مہینے ہی میں میر جعفر اور میر صادق بن گئے تھے، میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، خاور نسیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ خود اپنے ہی گھر میں نقیب لگائے گا، ایک باپ ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ ایک ملنسار، شریف نظر آنے والے شخص سے کون ایسی قبیح حرکت کی امید کر سکتا تھا، نبیل بھی جان چھڑکتا تھا اپنی بہن پر مگر یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔ میرا ذہن حال اور ماضی کے چہروں کو ملانے کی کوشش کر رہا تھا مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، ان دونوں کا ماضی کچھ تھا اور حال ایک بھیانک اور سیاہی میں ڈوبی حقیقت. میری آنکھیں ڈبڈبا گیں۔
امی تم مجھے بھیڑیوں کے سپرد کر کے کیوں گئی؟ مجھے اپنے ساتھ ہی لے جاتیں، ماں میرے پاس آجاو ، مجھے اپنی آغوش میں چھپا لو، ماں تم مریں تو سب مر گئے ، میرا باپ مر گیا، بھائی مر گیا، میں مر گئی تمہارا ہر اچھا مر گیا، ماں یہ گھر تمہاری جنت فنا ہو گئی، تیرے گھر کی رحمت کو من کی سیاہی نے میلا کر دیا
مجھے یوں لگا کہ در، دیوار رو رہے ہیں، غور کیا تو واقعی تمام گھر روتا نظر آیا، فرش تپ رہا تھا، فضا میں ثمینہ کی آہ و فریاد کی ہمراہی میں اب محلے کی عورتوں کی توبہ توبہ کے بجائے، ان کی سسکیوں کی آوازیں شامل ہو چکی تھیں، آسمان کا کلیجہ اس معصوم و مظلوم کی دہائیوں سے جیسے پھٹ رہا تھا، بادلوں کی گرج دل پر محسوس ہو رہی تھی، حیوانیت بھی دانتوں تلے انگلی دبائے کھڑی نظر آئی، ابلیس کانوں کو ہاتھ لگائے جا رہا تھا، انسانیت کا ہر احساس پامال ہو چلا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں مجرم ہوں، ایک بھائی، ایک باپ ہونا مجھے بھی اس عدالت میں کھینچ لایا تھا، جو خاور نسیم اور نبیل کے جرم پر سجی تھی، وہ دونوں چور تھے ایسے چور جنھوں نے مال و زر سے قیمتی شے چرائی تھی اورجس کی وصولی بھی ممکن نہیں تھی، مجھے یوں لگا جیسے ثمینہ کا دکھ نیا نہیں ہے، آسمان کا کلیجہ یوں پہلے بھی پھٹا ہے، بادلوں کی گرج گزری زندگی میں کتنی ہی دفعہ دل پر محسوس ہوئی ہے، یقینا اس پل کسی اور محلے میں ، کسی اور گھر میں کوئی اور ثمینہ روئی ہو گی، مرد ہونے کا احساس پھرعدالت کے کٹہرے میں بحیثیت مجرم کھڑا ہوا ہوگا، وجود ِ زن اس پل پھرجیتے جی زندگی سے محروم رہی ہو گی، اس سوچ کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے بھی آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ میں نے کانپتا ہوا ہاتھ ثمینہ کے سر پر رکھ دیا، اس نے روتے روتے میری جانب سر اٹھا کر دیکھا اور مجھے اس کی ویران آنکھوں میں ایک ہی خوف، ایک ہی طنز نظر آیا جو گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا استاد صاحب تم بھی تو مرد ہو ۔۔۔
س ن مخمور
امر تنہائی
از س ن مخمور
اگر مجھے زندگی اور موت پر اختیار ہوتا تو میں اپنے بھائی اور باپ کو زندگی سے محروم کر دیتی
یہ کہہ کرثمینہ نے اپنا مرجھا یا گلاب جیسا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
کاش میری ماں کی جگہ میرا باپ مر جاتا، کاش کسی نامعلوم فرد کی گولی میرے بھائی سے اس کی زندگی چھین لیتی
اس کے ہر لفظ سے غم روح چھلک رہا تھا، اس کا جوان اور خوبرو بدن رواں رواں زخمی ہو چلا تھا، اور روح تلک میں وہ زخم زہر بن کر اتر چکے تھے جن کی بدولت آج اس کے لبوں پرسے یہ باتیں اڑ کرتماش بین محلے داروں کی بے حس سماعت میں کہیں گم ہو رہی تھیں، مگر اس کو جیسے اب ان باتوں کی پرواہ نہ تھی ، وہ مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی مگر آج وہ مجھے اپنے آپ سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔ اس کا گھر اس وقت محلے داروں سے بھرا ہوا تھا، باہر گلی میں پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، سیاسی جماعت سے منسلک کچھ لڑکے میڈیا کے نمائندوں کو بلانے کی باتیں کر رہے تھے، مگر وہ لڑکے جو بچپن سے اس گھر اور گھر کے مکینوں سے واقف تھے آڑے آ رہے تھے، سیاسی جماعت کی علاقائی کمیٹی کے وہ لڑکے اس وقت بہت بردباری کا ثبوت دے رہے تھے، بچپن کی محلے داری اور دوستی نبھانے کا یہ ہی وقت تھا، گھر کی فضا میں ثمینہ کے رونے کی آواز گونج رہی تھی میں نے اس کو پڑھایا تھا اس لئے مجھ کو نمایاں جگہ ملی تھی ، آپا نسیمہ اس کو چپ کروا رہی تھیں مگر ہچکیوں، سسکیوں، اور رونے کا نہ تھمنے والا سلسلہ رواں تھا۔ اس کے بال کھلے ہوئے بنا دوپٹے کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، آپا نسیمہ اس کو اپنی سفید چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی تو اس نے جیسے نوچ کر چادر اتار پھینکی
مت کرو یہ تماشے، نہیں چاہئے مجھے چادر، یہ طور طریقہ تو ان کا ہوتا ہے جن کا باپ سائبان ہوتا ہے جو خود تو جل جاتا ہے مگر اپنے تلے آگ کی تپش تک آنے نہیں دیتا، اس نے تو خود مجھے ہی جلا دیا، یہ چادر تو ان کے لئے ہوتی ہے جن کے بھائی ان کے گرد تمام عمر خار بن کر ایک محافظ کی مانند زندگی گزار دیتے ہیں، آپا وہ تو چور تھے چوری کر لیا سب کچھ انھوں نے، کاش ہر ماں کے مرنے پر اس کی بیٹی کو بھی اللہ موت دے دے مگر ایسی موت نہِیں جیسی موت اس نے مجھے دی ہے، آپا نہیں چاہئے مجھے چادر، اب کیا ملے گا اسکو اوڑھنے سے مجھکو
میرا دماغ بھک ہو گیا تھا، خالہ کا چالسواں ہوئے مہینہ ہی ہوا تھا، عمر بھر کے محافظ ایک مہینے ہی میں میر جعفر اور میر صادق بن گئے تھے، میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، خاور نسیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ خود اپنے ہی گھر میں نقیب لگائے گا، ایک باپ ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ ایک ملنسار، شریف نظر آنے والے شخص سے کون ایسی قبیح حرکت کی امید کر سکتا تھا، نبیل بھی جان چھڑکتا تھا اپنی بہن پر مگر یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔ میرا ذہن حال اور ماضی کے چہروں کو ملانے کی کوشش کر رہا تھا مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، ان دونوں کا ماضی کچھ تھا اور حال ایک بھیانک اور سیاہی میں ڈوبی حقیقت. میری آنکھیں ڈبڈبا گیں۔
امی تم مجھے بھیڑیوں کے سپرد کر کے کیوں گئی؟ مجھے اپنے ساتھ ہی لے جاتیں، ماں میرے پاس آجاو ، مجھے اپنی آغوش میں چھپا لو، ماں تم مریں تو سب مر گئے ، میرا باپ مر گیا، بھائی مر گیا، میں مر گئی تمہارا ہر اچھا مر گیا، ماں یہ گھر تمہاری جنت فنا ہو گئی، تیرے گھر کی رحمت کو من کی سیاہی نے میلا کر دیا
مجھے یوں لگا کہ در، دیوار رو رہے ہیں، غور کیا تو واقعی تمام گھر روتا نظر آیا، فرش تپ رہا تھا، فضا میں ثمینہ کی آہ و فریاد کی ہمراہی میں اب محلے کی عورتوں کی توبہ توبہ کے بجائے، ان کی سسکیوں کی آوازیں شامل ہو چکی تھیں، آسمان کا کلیجہ اس معصوم و مظلوم کی دہائیوں سے جیسے پھٹ رہا تھا، بادلوں کی گرج دل پر محسوس ہو رہی تھی، حیوانیت بھی دانتوں تلے انگلی دبائے کھڑی نظر آئی، ابلیس کانوں کو ہاتھ لگائے جا رہا تھا، انسانیت کا ہر احساس پامال ہو چلا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں مجرم ہوں، ایک بھائی، ایک باپ ہونا مجھے بھی اس عدالت میں کھینچ لایا تھا، جو خاور نسیم اور نبیل کے جرم پر سجی تھی، وہ دونوں چور تھے ایسے چور جنھوں نے مال و زر سے قیمتی شے چرائی تھی اورجس کی وصولی بھی ممکن نہیں تھی، مجھے یوں لگا جیسے ثمینہ کا دکھ نیا نہیں ہے، آسمان کا کلیجہ یوں پہلے بھی پھٹا ہے، بادلوں کی گرج گزری زندگی میں کتنی ہی دفعہ دل پر محسوس ہوئی ہے، یقینا اس پل کسی اور محلے میں ، کسی اور گھر میں کوئی اور ثمینہ روئی ہو گی، مرد ہونے کا احساس پھرعدالت کے کٹہرے میں بحیثیت مجرم کھڑا ہوا ہوگا، وجود ِ زن اس پل پھرجیتے جی زندگی سے محروم رہی ہو گی، اس سوچ کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے بھی آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ میں نے کانپتا ہوا ہاتھ ثمینہ کے سر پر رکھ دیا، اس نے روتے روتے میری جانب سر اٹھا کر دیکھا اور مجھے اس کی ویران آنکھوں میں ایک ہی خوف، ایک ہی طنز نظر آیا جو گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا استاد صاحب تم بھی تو مرد ہو ۔۔۔
س ن مخمور
امر تنہائی