سائباں تلے جھلستی زمیں ۔۔۔۔۔ از س ن مخمور

قیصرانی

لائبریرین
ایک بہت عجیب بات کر رہا ہوں۔۔۔ ایک عمر رسیدہ ناول نگار خاتون سے کسی نے پوچھا محترمہ سبق آموز کہانیاں لکھتے ہوئے عمر بیت گئی آپ کی؟ بتائیے معاشرے پر اس کا کیا اثر دیکھتی ہیں؟ تو کہنے لگیں کوئی اثر نہیں دیکھتی۔ لوگ کہانی پڑھتے ہیں، بھول جاتے ہیں۔ جن غلطیو ں سے روکتی ہوں وہ بڑھتی تو ہیں، کم ہونے کا نام تک نہیں لیتیں۔

معاشرتی برائیوں پر بات کرنا بے شک ایک باضمیر شخص کی پہچان ہے اور بلا شبہ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس میں جرات ہو، لیکن سچ یہ ہے کہ شریعت نے جو کہا ہے وہ بالکل ٹھیک کہا ہے، یہ الگ بات کہ اس کی باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں، اور کیوں نہ ہوں، یہ تمام باتیں کرنے اور سمجھانے والی ذات کا علم اور حکمت لامحدود ہے اور ہم سب ایک محدود عقل رکھتے ہیں جو کم علمی کی پوشاک پہنے علم وحکمت کے نت نئے زاویے تلاش کرنے جاتی بھی ہے تو بھٹک بھٹک کر بہت سے کوئلے چن کر لے آتی ہے اور انہی کو ہیرا سمجھتے ہوئے انسان کی پوری عمر کٹ جاتی ہے۔ یہی ہماری حقیقت ہے ۔۔ دین ہمیں برائیوں کی تشہیر سے روکتا ہے۔ آپ نے بہت اچھے طریقے سے سنجیدگی سے لکھا اور اس میں کہیں کوئی بے حیائی والی بات نظر بھی نہیں آتی، لیکن انسانی ذہن کی یہ فطرت ہے کہ وہ ہر بات میں منفی پہلو پہلے تلاش کرتا ہے۔ یہی نفس امارہ کی حقیقت ہے۔ ۔

اس چھوٹے سے افسانے میں جو منفی پہلو میں دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے، وہ جان گئے کہ ہوتا ہے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ مطلب یہ کہ جو کام دنیا میں ہورہا ہے، اسے برا سمجھا جائے یا بھلا، اسے کرنے کی ایک دلیل تو پیدا ہو ہی جاتی ہے کہ اور لوگ کر رہے ہیں ۔ ہم نہیں کر رہے اور جب تک نہیں کریں گے، ا ن سے پیچھے رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ فلم چاہے کسی سنجیدہ موضوع پر ہی کیوں نہ ہو، اگر ہیرو ہیروئن کا رقص اچھا نہیں تو فلاپ ہوجائے گی۔

منفی پہلو جو میں نے بتایا، اسے اس نظر سے دیکھئے کہ یہ معاشرہ ہے۔ اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ برے لوگ اپنی برائی چھپاتے ہیں۔ کھل کر بیان نہیں کرسکتے، لیکن اپنی فطرت سے تو باز آنہیں سکتے۔ لہٰذاایسی تحریروں سے ان کا حوصلہ بڑھتا ہے کہ برائی تو ہے، ہم مانتے ہیں کہ برائی ہے اور ہمیں اس پر شرمندگی ہے لیکن اور لوگ بھی تو کر رہے ہیں اور اتنے لوگ کر رہے ہیں کہ آج ایک قلمکار کو انہیں روکنے کے لیے اپنا قلم اٹھانا پڑ گیا؟؟

ناول نگار یا افسانہ نگار بننے کا شوق مجھے بھی رہا اور میں نے کچھ کہانیاں لکھیں بھی، لیکن ان سب کو ادھورا اور لاوارث چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ایک بار ایک دوست کے ساتھ بھونگ جانے کا اتفاق ہوا ۔۔ وہاں کوئی مفتی صاحب تھے، نام یاد نہیں۔ بہرحال میں نے ان سے پوچھا کہ میں کہانی کار بننا چاہتا ہوں کیا یہ ٹھیک ہے؟ فرمایا کہ شریعت جھوٹ کی اجازت نہیں دیتی اور جھوٹ سے کمانا تو حرام کھانا ہے۔ میں نے سوچا مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم ۔ لیکن جس جنون سے کہانی لکھنے کا شوق ہوا تھا، اس کی کمر ٹوٹ گئی کیونکہ بہت سیدھے سادے انداز میں انہوں نے جو کہا تھا، وہ سچ تھا۔ آپ کو سچ کہنا چاہئےلیکن برائی کی تشہیر سے بچنا چاہئے۔ ایسا کرنا فتنوں کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بچئے۔۔۔
ابن صفی مرحوم نے ایک بار پیش رس میں اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ قرآن و احادیث کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ابن صفی کی تحاریر سے بہت زیادہ اہم ہیں۔ جب قرآن و حدیث کسی کی زندگی کو بدل نہیں سکے تو پھر ابن صفی کے بقول ان کی تحاریر کیسے کسی کو بدل سکتی ہیں :)
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بھائی ۔۔۔۔۔ ممنون ہوں آپکا ۔۔۔۔۔
آپکو آمد خاکسار کے لئے خوشی کا باعث ہے
آپکی وضاحت پر کان کھڑے ہوگئے
بغل میں دبی فیروزالغات نکالی اور انٹرنیٹ پر اردو انسائیکلوپیڈیا تک رسائی کی
مگر دونوں ہی جگہ " آڑے آنا ‘‘ کے معنی میں حائل ہونا بھی پایا ۔۔۔۔ عین ممکن ہے
دونوں جگہ بہتری کی گنجائش ہو ۔۔۔ فقیر مزید تلاش میں ہے ۔۔۔۔ امید کرتا ہوں
آمد اور اظہار کا سلسلہ مستقل فرمائیں گے ۔۔۔
اللہ آباد و کامران رکھے آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
جزاک اللہ خیراً
جی، بالکل درست کہا آپ نے کہ دونوں جگہ 'آڑے آنا' کے معنی 'حائل ہونا' ہی درج ہیں۔ دراصل، ہمارے ہاں لغت نویسی کے ذیل میں محض مترادفات و متبادلات کی فراہمی کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ایک عام قاری مغالطے کا شکار ہوجاتا ہے اور بعض اوقات پوری بات نہیں سمجھ پایا۔ اسی باعث دنیا بھر میں جہاں علمِ لغت (lexicology) اور لغت نویسی (lexicography) کی مضبوط روایات موجود ہیں وہاں لغت نویسی کے حوالے سے اس بات پر سختی سے عمل کیا جانے لگا ہے کہ لغت (dictionary) میں تو الفاظ کی باقاعدہ تشریح کی جاتی ہے، البتہ قاموس المترادفات (thesaurus) میں محض مترادفات و متبادلات دینے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
اب اسی محاورے پر واپس چلتے ہیں، میں یہاں ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی کی کتاب 'اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ' کا ایک اقتباس پیش کررہا ہوں، امید ہے کہ اس سے مذکورہ محاورے کا مفہوم واضح ہوجائے گا۔ "’آڑے آنا‘ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔" اس بات سے مراد یہ ہے کہ پریشان شخص کے آڑے آیا جاتا ہے، نہ کہ پریشانی کا باعث بننے والے کے۔ اسی لئے وارث سرہندی نے 'علمی اردو لغت' میں اس کے معنی 'مصیبت اور پریشانی کے وقت مدد کرنا، سہارا دینا، حمایت کرنا' لکھے ہیں۔
اگر لغت میں 'آڑے آنا' کا مکمل مفہوم سمجھائے بغیر اس کا مطلب 'حائل ہونا' لکھ دیا جائے تو یقیناً عام قاری اس سے مراد مصیبت پیدا کرنے والے شخص کی راہ میں حائل ہونا یا رکاوٹ بننا ہی لے گا جبکہ عین ممکن ہے کہ مصیبت کسی قدرتی آفت کی شکل میں ہو اور کسی شخص کا اس سے کوئی لینا دینا ہی نہ ہو۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ابن صفی مرحوم نے ایک بار پیش رس میں اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ قرآن و احادیث کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ابن صفی کی تحاریر سے بہت زیادہ اہم ہیں۔ جب قرآن و حدیث کسی کی زندگی کو بدل نہیں سکے تو پھر ابن صفی کے بقول ان کی تحاریر کیسے کسی کو بدل سکتی ہیں :)
قرآن و حدیث تو بہت بڑی چیز ہیں، ا ن کا کسی کی تحریر سے موازنہ ہی غلط ہے ، چہ جائیکہ ایسے کسی سوال کا جواب دینا۔۔۔ اس بات پر بہت بحث ہوسکتی ہے کہ کیسے قرآن و حدیث نے کسی کی زندگی کو نہ بدلایا بدلا تو کیسے؟کیونکہ اس کی بہت بڑی تاریخ ہے۔۔۔ تریسٹھ برس نبی مکرم ٖ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ، سو برس صحابہ کرام اور ان سے کہیں زیادہ عرصہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے تابعین اور تبع تابعین کی زندگیاں، اب تک کتنے ہی باعمل مسلمانوں کی مثالیں ہمارے سامنے آچکی ہیں۔ یہاں یہ سوال ہی غلط ہے کہ اگر وہ ابن صفی کی تحاریر پر عمل کرتے تو کتنے عظیم انسان بن سکتے تھے۔ ۔بات یہ نہیں تھی کہ آپ کی تحریر کسی کی زندگی بدلے گی یا نہیں، اس کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا توکردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی برائیاں ، خصوصا ایسی برائیاں جو کم کم ہوتی ہیں، ان کا ذکر کرنا ان کی تشہیر کرنا ہے۔ اس سے فتنے پھیلتے ہیں۔ قرآ ن و حدیث ہمارا موضوع نہ بھی ہو، تو کیا یہ درست ہے کہ جو برائی کم ہوتی ہے، جس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا، اس کی طرف ایسی تحریروں سے توجہ دلائی جائے۔ ۔کیا ہم دیکھتے نہیں کہ جو برائیا ں ،فحاشی اور حیران و پریشان کردینے والے فتنے پہلے کبھی تھے ہی نہیں، انہیں سامنے لا کر پہلے غلط اور پھر آہستہ آہستہ درست بنا دیاجاتا ہے۔ معاشرہ اسی طرح تبدیل ہوتا ہے۔ قوانین بدل دئیے جاتے ہیں، زندگیاں بد سے بد تر کردی جاتی ہیں اور ہم اسے روشن خیالی اور آزادی اظہار کا نام دے کر خوش ہوجاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا انسداد نہ کیاجائے، لیکن تشہیر انسداد کی ایک صورت قرار نہیں دی جاسکتی۔ ۔آج ایک شخص نے ایک انتہائی گھٹیا فعل کیا ہے اور اس کا ذکر افسانوں میں بغیر نام لیے ہورہا ہے۔ کل نام لے کر ہوگا۔ پھر وہ شخص بدنام ہوجائے گا ۔ یہ اور ایسے کتنے ہی گھٹیا لوگ یہ نعرہ لگا کر کہ " بدنام جو ہم ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟" اپنا نام ساری دنیا کو بتانے کے لیے مسلسل یہ برائیاں کرتے رہیں گے، کیونکہ ایسے قبیح فعل پر ہر ایک کو موت کی سزا تو دی نہیں جاسکتی، یوں یہ برائی مزید پھیلے گی۔ برائی کا خیال ہر ذہن میں پیدا ہوتا ہے، لیکن کون سی برائی ممکن ہے، کون سی نہیں، ہر ذہن یہ بات نہیں جانتا۔معذرت کے ساتھ آپ اسے اس برائی کا آئیڈیا دے رہے ہیں، جو اسے جانتا ہی نہیں، تو کون سا نیکی کاکام ہوا؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
۔۔۔ پہلے کے مراسلے کا اقتباس پیش کررہا ہوں، جو کھل کر بتا رہا ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔
اس چھوٹے سے افسانے میں جو منفی پہلو میں دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے، وہ جان گئے کہ ہوتا ہے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ مطلب یہ کہ جو کام دنیا میں ہورہا ہے، اسے برا سمجھا جائے یا بھلا، اسے کرنے کی ایک دلیل تو پیدا ہو ہی جاتی ہے کہ اور لوگ کر رہے ہیں ۔ ہم نہیں کر رہے اور جب تک نہیں کریں گے، ا ن سے پیچھے رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ فلم چاہے کسی سنجیدہ موضوع پر ہی کیوں نہ ہو، اگر ہیرو ہیروئن کا رقص اچھا نہیں تو فلاپ ہوجائے گی۔

منفی پہلو جو میں نے بتایا، اسے اس نظر سے دیکھئے کہ یہ معاشرہ ہے۔ اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ برے لوگ اپنی برائی چھپاتے ہیں۔ کھل کر بیان نہیں کرسکتے، لیکن اپنی فطرت سے تو باز آنہیں سکتے۔ لہٰذاایسی تحریروں سے ان کا حوصلہ بڑھتا ہے کہ برائی تو ہے، ہم مانتے ہیں کہ برائی ہے اور ہمیں اس پر شرمندگی ہے لیکن اور لوگ بھی تو کر رہے ہیں اور اتنے لوگ کر رہے ہیں کہ آج ایک قلمکار کو انہیں روکنے کے لیے اپنا قلم اٹھانا پڑ گیا؟؟
 

قیصرانی

لائبریرین
قرآن و حدیث تو بہت بڑی چیز ہیں، ا ن کا کسی کی تحریر سے موازنہ ہی غلط ہے ، چہ جائیکہ ایسے کسی سوال کا جواب دینا۔۔۔ اس بات پر بہت بحث ہوسکتی ہے کہ کیسے قرآن و حدیث نے کسی کی زندگی کو نہ بدلایا بدلا تو کیسے؟کیونکہ اس کی بہت بڑی تاریخ ہے۔۔۔ تریسٹھ برس نبی مکرم ٖ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ، سو برس صحابہ کرام اور ان سے کہیں زیادہ عرصہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے تابعین اور تبع تابعین کی زندگیاں، اب تک کتنے ہی باعمل مسلمانوں کی مثالیں ہمارے سامنے آچکی ہیں۔ یہاں یہ سوال ہی غلط ہے کہ اگر وہ ابن صفی کی تحاریر پر عمل کرتے تو کتنے عظیم انسان بن سکتے تھے۔ ۔بات یہ نہیں تھی کہ آپ کی تحریر کسی کی زندگی بدلے گی یا نہیں، اس کا ذکر برسبیل تذکرہ آگیا توکردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی برائیاں ، خصوصا ایسی برائیاں جو کم کم ہوتی ہیں، ان کا ذکر کرنا ان کی تشہیر کرنا ہے۔ اس سے فتنے پھیلتے ہیں۔ قرآ ن و حدیث ہمارا موضوع نہ بھی ہو، تو کیا یہ درست ہے کہ جو برائی کم ہوتی ہے، جس کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا، اس کی طرف ایسی تحریروں سے توجہ دلائی جائے۔ ۔کیا ہم دیکھتے نہیں کہ جو برائیا ں ،فحاشی اور حیران و پریشان کردینے والے فتنے پہلے کبھی تھے ہی نہیں، انہیں سامنے لا کر پہلے غلط اور پھر آہستہ آہستہ درست بنا دیاجاتا ہے۔ معاشرہ اسی طرح تبدیل ہوتا ہے۔ قوانین بدل دئیے جاتے ہیں، زندگیاں بد سے بد تر کردی جاتی ہیں اور ہم اسے روشن خیالی اور آزادی اظہار کا نام دے کر خوش ہوجاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا انسداد نہ کیاجائے، لیکن تشہیر انسداد کی ایک صورت قرار نہیں دی جاسکتی۔ ۔آج ایک شخص نے ایک انتہائی گھٹیا فعل کیا ہے اور اس کا ذکر افسانوں میں بغیر نام لیے ہورہا ہے۔ کل نام لے کر ہوگا۔ پھر وہ شخص بدنام ہوجائے گا ۔ یہ اور ایسے کتنے ہی گھٹیا لوگ یہ نعرہ لگا کر کہ " بدنام جو ہم ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟" اپنا نام ساری دنیا کو بتانے کے لیے مسلسل یہ برائیاں کرتے رہیں گے، کیونکہ ایسے قبیح فعل پر ہر ایک کو موت کی سزا تو دی نہیں جاسکتی، یوں یہ برائی مزید پھیلے گی۔ برائی کا خیال ہر ذہن میں پیدا ہوتا ہے، لیکن کون سی برائی ممکن ہے، کون سی نہیں، ہر ذہن یہ بات نہیں جانتا۔معذرت کے ساتھ آپ اسے اس برائی کا آئیڈیا دے رہے ہیں، جو اسے جانتا ہی نہیں، تو کون سا نیکی کاکام ہوا؟
میں نے تو کہیں بھی ایسی بات نہیں کی کہ آپ کو اتنی بڑی تحریر لکھنی پڑی :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے تو کہیں بھی ایسی بات نہیں کی کہ آپ کو اتنی بڑی تحریر لکھنی پڑی :)
جب قرآن و حدیث کسی کی زندگی کو بدل نہیں سکے تو پھر ابن صفی کے بقول ان کی تحاریر کیسے کسی کو بدل سکتی ہیں۔۔۔
آپ کی تحریر میں یہ سوال بہت عجیب تھا۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جب قرآن و حدیث کسی کی زندگی کو بدل نہیں سکے تو پھر ابن صفی کے بقول ان کی تحاریر کیسے کسی کو بدل سکتی ہیں۔۔۔
آپ کی تحریر میں یہ سوال بہت عجیب تھا۔۔۔
آپ اس سے اوپر بھی مراسلے دیکھیں تاکہ یہ پوسٹ اپنے سیاق و سباق سمیت سمجھ سکیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
آپ اس سے اوپر بھی مراسلے دیکھیں تاکہ یہ پوسٹ اپنے سیاق و سباق سمیت سمجھ سکیں :)
یہ اس بات کا جواب بلکہ تسلسل تھا
ایک بہت عجیب بات کر رہا ہوں۔۔۔ ایک عمر رسیدہ ناول نگار خاتون سے کسی نے پوچھا محترمہ سبق آموز کہانیاں لکھتے ہوئے عمر بیت گئی آپ کی؟ بتائیے معاشرے پر اس کا کیا اثر دیکھتی ہیں؟ تو کہنے لگیں کوئی اثر نہیں دیکھتی۔ لوگ کہانی پڑھتے ہیں، بھول جاتے ہیں۔ جن غلطیو ں سے روکتی ہوں وہ بڑھتی تو ہیں، کم ہونے کا نام تک نہیں لیتیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہ اس بات کا جواب بلکہ تسلسل تھا
زیادہ تر لکھنے والے معاشرتی برائیوں کا تذکرہ اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ کم ہوسکیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ نیت اچھی ہوتی ہے لیکن کام وہ ہوتا ہے جس سے برائی مزید پھلتی پھولتی ہے۔۔ خیر، یہ ہماری رائے ہے۔۔۔ اور اسے مزید دُہرانے سے کچھ حاصل نہیں۔۔۔ سو یہ سلسلہ یہیں موقوف۔۔۔آپ کی توجہ اور محبت کا شکریہ ۔۔۔
 
Top