سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس کا فیصلہ دے دیا گیا

الف نظامی

لائبریرین
آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10، 10 سال قید کی سزا سنادی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کی۔ فاضل جج نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 342کے بیان کیلئے سوالنامہ اور اسٹیٹمینٹس کی کاپیاں فراہم کیں-

سوالنامے میں ملزمان سے تقریبا 36 سوالوں کے جواب مانگے گئے ۔ دونوں سیاسی رہنماؤں نے خود جوابات لکھوائے۔

342 کا بیان قلمبند کرنے کے بعد جج نے سزا سنانے سے پہلے آخری سوال پوچھا عمران خان صاحب سائفر کہاں گیا؟

بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم، سائفر میرے پاس نہیں بلکہ میرے دفتر میں تھا، میں نے اپنے بیان میں لکھوا دیا ہے، وزیراعظم آفس کی سیکیورٹی میری ذمہ داری نہیں تھی۔

عدالت نے شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ کرانے سے قبل ہی بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی دونوں کو جرم ثابت ہونے پر قید کی سزا سنادی۔

فیصلے کے بعد بانی پی ٹی آئی مسکراتے رہے جبکہ شاہ محمود قریشی نے احتجاج کیا کہ میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا۔
 

الف نظامی

لائبریرین

توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید

توشہ خانہ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدم موجودگی میں فیصلہ سنایا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی بھی ٹیم کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔

بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو مجموعی طور پر 1574 ملین روپے جرمانہ کیا گیا، بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی 787 ملین روپے فی کس جرمانہ ادا کریں گے۔

بانی پی ٹی آئی کو 10سال کے لیے نااہلی کی سزا بھی سنائی گئی جبکہ دونوں 10 سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لیے اہل نہیں ہوں گے

سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے کہا کہ خان صاحب آپ نے 342 کا بیان تیار کیا ہے، جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جی میں نے تیار کیا ہے میرے وکلاء اور بشریٰ بی بی کو آنے دیں تو میں اپنا بیان جمع کروا دوں گا۔

جج نے کہا کہ آپ اپنا بیان عدالت میں جمع کرائیں ہم نے کارروائی آگے بڑھانی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہماری حکم امتناع کی درخواست خارج کر دی ہے، مجھے تو اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ نے حاضری لگوانے کے لیے عدالت بلایا۔

بانی پی ٹی آئی یہ کہہ کر کمرہ عدالت سے اپنی بیرک روانہ ہوگئے۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو دوبارہ کمرہ عدالت بلانے کے لیے پیغام بھیجا۔


اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ جیل نے عدالت میں بیان دیا کہ بانی پی ٹی آئی کمرہ عدالت آنے کے لیے تیار نہیں، جس پر عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا نام پکارنے کی ہدایت کر دی۔ عدالتی اہلکار نے اونچی آواز میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا نام پکارا لیکن پکار کے باوجود بانی پی ٹی آئی عدالت نہیں آئے۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے فیصلہ سنایا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سید مہدی بخاری لکھتے ہیں :
توشہ خانہ ریفرنس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کو چودہ سال قید، سائفر کیس میں عمران خان کو دس سال۔ مگر آپ نے گھبرانا نہیں کیونکہ یہ ملک خدا کا معجزہ ہے۔ میں آپ کو ماضی قریب سے چند مثالیں دے کر تسلی کروانا چاہتا ہوں۔

طیارہ ہائی جیک کیس میں شریف برادران کو عمر قید ہوئی۔ چار ماہ بعد دونوں بھائی جدہ پہنچ گئے۔ شاہی مہمان رہے اور دس سال بعد چھوٹا بھائی پھر سے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا۔
حنیف عباسی کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ دو سال کے اندر معطل ہو گئی۔

پانامہ کیس میں یوں تو 436 افراد کے نام تھے مگر پھر سے میاں صاحب کو رگڑا لگا۔ تاحیات نااہلی ہوئی۔ چار سال کے اندر ہی میاں صاحب پھر سے میدان میں ہیں اور ایسے کہ ان کے مقابل سارا میدان صاف کیا جا رہا ہے۔

زرداری صاحب کو سرے محل، شان بینک سکینڈل اور دیگر کیسز میں گیارہ سال قید ہوئی۔ زرداری صاحب نے تین سال کاٹی باقی آن اینڈ آف رہے۔ اور اب وہ پارٹی کے شریک چئیرمین ہیں۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ ملک خدا کا معجزہ ہے۔ یہاں کب قانون کی پٹاری سے کوبرا نکل آئے اور کب آزادی کا کبوتر اس بارے صرف وہی جانتے ہیں جو غائب بھی ہیں حاضر بھی۔ کس لمحے کس سبب ڈیل ہو جائے۔ کب منظر بدل جائے۔ کب حسینیت زندہ ہو اور کب یزیدیت چھانے لگے۔سچ کس گھڑی جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر پتلی گلی سے نکل لے اور کب جھوٹ کورا سچ بن کر سامنے آن کھڑا ہو۔ کون جانے۔

قانون و آئین تو وہ کتاب ہے جو مخالف کو “فکس” کرنے کے کام آوے ہے ملکی نظام چلانے کے ناہیں۔ نظام فون کال پر چلے ہے۔ واٹس ایپ پر چلے ہے۔ ایک آئین تو وہ ہے جو لکھا ہوا نہیں مگر وہی نافذ العمل ہے۔ جو وہ کہہ دیں وہی قانون، جیسا وہ چاہویں وہی آئین۔

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہو چکا ہوں کہ عوام میں کسی آئینی و سیاسی فیصلے کے رد عمل میں غصہ یا خوشی کیوں اُبھرتی ہے ؟۔ بس ذرا صبر، تھوڑا وقت اور موسم بدلنے کا انتظار ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ کل کا ولن ہیرو بن سکتا ہے۔ آج کا ہیرو کل ولن ہو سکتا ہے۔ کردار کسی بھی لمحے یک لخت بدلے جاتے ہیں۔ نظام سانپ کی کینچلی مافق کسی بھی وقت روپ بدل سکتا ہے۔ یہاں موسیٰ فرعون بن سکتا ہے، فرعون موسی۔ اِدھر سقراط کو تخت بھی مل سکتا ہے اور یونانیوں کو زہر کا پیالہ۔ یہاں گلیلیو زمین کو سورج کے گرد گھما سکتا ہے اور چرچ سورج کو زمین کے گرد۔

میرا چیف میری حکومت، تیرا چیف تیری حکومت۔ میرا جج حق سچ کا فیصلہ، تیرا جج جابرانہ فیصلہ۔ یہی پاکستان کی کہانی ہے۔

کچھ بھی ممکن ہے۔ سب ممکن ہے۔ یہ قطعہ اراضی ممکنات کا دوجا نام ہے۔ کوئی در بند نہیں سب در کھُلے ہیں۔ سب در بند ہیں اور کوئی نہیں کھُلا۔ پاکستان بابِ طلسم ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
گزشتہ الیکشن میں جو کچھ ہوا، اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ لگ رہا ہے کہ عمران خان صاحب کو بھی الیکشن کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے رہا کر دیا جائے گا۔ بظاہر کیسز میں کوئی خاص جان نہیں، بس انہیں الیکشن سے دور رکھنا مقصود تھا۔ جب وہ رہا ہو جائیں گے تو پھر شاید دو تین سال بعد نئے سرے سے سیاسی بساط سجائی جائے گی۔ ممکن ہے کہ انہیں ایک اور موقع مل جائے۔
 

سیما علی

لائبریرین
عدالت نے شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ کرانے سے قبل ہی بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی دونوں کو جرم ثابت ہونے پر قید کی سزا سنادی۔
افسوس کرنے کا حق تو رکھتے ہم اگر پی ٹی آئی کے حامی نہ بھی ہوں تو ۔۔۔۔
 
آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں 10، 10 سال قید کی سزا سنادی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کی۔ فاضل جج نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 342کے بیان کیلئے سوالنامہ اور اسٹیٹمینٹس کی کاپیاں فراہم کیں-

سوالنامے میں ملزمان سے تقریبا 36 سوالوں کے جواب مانگے گئے ۔ دونوں سیاسی رہنماؤں نے خود جوابات لکھوائے۔

342 کا بیان قلمبند کرنے کے بعد جج نے سزا سنانے سے پہلے آخری سوال پوچھا عمران خان صاحب سائفر کہاں گیا؟

بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم، سائفر میرے پاس نہیں بلکہ میرے دفتر میں تھا، میں نے اپنے بیان میں لکھوا دیا ہے، وزیراعظم آفس کی سیکیورٹی میری ذمہ داری نہیں تھی۔

عدالت نے شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ کرانے سے قبل ہی بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی دونوں کو جرم ثابت ہونے پر قید کی سزا سنادی۔

فیصلے کے بعد بانی پی ٹی آئی مسکراتے رہے جبکہ شاہ محمود قریشی نے احتجاج کیا کہ میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا۔
دعا کرنی چاھئیے کہ اللہ پاک انصاف فراہم کرے عمران بشری بی بی اور شاہ محمود قریشی سمیت جتنے بھی لوگ بے قصور جیلوں میں بند ہیں۔
اللہ پاک ظالموں کو ہدایت دے اور مظلوموں کو جلد انصاف فراہم کرے آمین!
 
سید مہدی بخاری لکھتے ہیں :
توشہ خانہ ریفرنس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کو چودہ سال قید، سائفر کیس میں عمران خان کو دس سال۔ مگر آپ نے گھبرانا نہیں کیونکہ یہ ملک خدا کا معجزہ ہے۔ میں آپ کو ماضی قریب سے چند مثالیں دے کر تسلی کروانا چاہتا ہوں۔

طیارہ ہائی جیک کیس میں شریف برادران کو عمر قید ہوئی۔ چار ماہ بعد دونوں بھائی جدہ پہنچ گئے۔ شاہی مہمان رہے اور دس سال بعد چھوٹا بھائی پھر سے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا۔
حنیف عباسی کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ دو سال کے اندر معطل ہو گئی۔

پانامہ کیس میں یوں تو 436 افراد کے نام تھے مگر پھر سے میاں صاحب کو رگڑا لگا۔ تاحیات نااہلی ہوئی۔ چار سال کے اندر ہی میاں صاحب پھر سے میدان میں ہیں اور ایسے کہ ان کے مقابل سارا میدان صاف کیا جا رہا ہے۔

زرداری صاحب کو سرے محل، شان بینک سکینڈل اور دیگر کیسز میں گیارہ سال قید ہوئی۔ زرداری صاحب نے تین سال کاٹی باقی آن اینڈ آف رہے۔ اور اب وہ پارٹی کے شریک چئیرمین ہیں۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ ملک خدا کا معجزہ ہے۔ یہاں کب قانون کی پٹاری سے کوبرا نکل آئے اور کب آزادی کا کبوتر اس بارے صرف وہی جانتے ہیں جو غائب بھی ہیں حاضر بھی۔ کس لمحے کس سبب ڈیل ہو جائے۔ کب منظر بدل جائے۔ کب حسینیت زندہ ہو اور کب یزیدیت چھانے لگے۔سچ کس گھڑی جھوٹ کا لبادہ اوڑھ کر پتلی گلی سے نکل لے اور کب جھوٹ کورا سچ بن کر سامنے آن کھڑا ہو۔ کون جانے۔

قانون و آئین تو وہ کتاب ہے جو مخالف کو “فکس” کرنے کے کام آوے ہے ملکی نظام چلانے کے ناہیں۔ نظام فون کال پر چلے ہے۔ واٹس ایپ پر چلے ہے۔ ایک آئین تو وہ ہے جو لکھا ہوا نہیں مگر وہی نافذ العمل ہے۔ جو وہ کہہ دیں وہی قانون، جیسا وہ چاہویں وہی آئین۔

میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہو چکا ہوں کہ عوام میں کسی آئینی و سیاسی فیصلے کے رد عمل میں غصہ یا خوشی کیوں اُبھرتی ہے ؟۔ بس ذرا صبر، تھوڑا وقت اور موسم بدلنے کا انتظار ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ کل کا ولن ہیرو بن سکتا ہے۔ آج کا ہیرو کل ولن ہو سکتا ہے۔ کردار کسی بھی لمحے یک لخت بدلے جاتے ہیں۔ نظام سانپ کی کینچلی مافق کسی بھی وقت روپ بدل سکتا ہے۔ یہاں موسیٰ فرعون بن سکتا ہے، فرعون موسی۔ اِدھر سقراط کو تخت بھی مل سکتا ہے اور یونانیوں کو زہر کا پیالہ۔ یہاں گلیلیو زمین کو سورج کے گرد گھما سکتا ہے اور چرچ سورج کو زمین کے گرد۔

میرا چیف میری حکومت، تیرا چیف تیری حکومت۔ میرا جج حق سچ کا فیصلہ، تیرا جج جابرانہ فیصلہ۔ یہی پاکستان کی کہانی ہے۔

کچھ بھی ممکن ہے۔ سب ممکن ہے۔ یہ قطعہ اراضی ممکنات کا دوجا نام ہے۔ کوئی در بند نہیں سب در کھُلے ہیں۔ سب در بند ہیں اور کوئی نہیں کھُلا۔ پاکستان بابِ طلسم ہے۔
پاکستان کی عوام بھی اِس وقت تذبذب کا شکار ہے اور سوچ رہی ہے کہ اِس وقت ووٹ کسے دیا جائے ؟
 
Top