سید عاطف علی
لائبریرین
یزداں بہ کمند آور
شمس الضحیٰ (مرحوم)
(سابق نائب ناظم، شعبہ تصنیف و تالیف، جامعہ کراچی)
نوٹ: چاند کے مسافر کی خیالی تصویر دیکھ کر، یہ نظم 1967ء میں لکھی گئی جو اسی سال ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کے دو ماہی سائنسی جریدے ’’جدید سائنس‘‘ میں بھی شائع ہوئی۔
نئی نسل سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کیلئے جو اُردو زبان میں سائنسی ادب کا ذوق رکھتے ہیں:
معمورہٴ ارضی کا اتنا ہے بس افسانہ
دو گام کا اِک گلشن، دو گام کا ویرانہ
گنتی کے عناصر کی آمیزش و آویزش
سو طرز سے جاری ہے یہ قصہٴ طفلانہ
الجھا تو بہت میں بھی حیرت گہِ عالم میں
کام آ ہی گئی لیکن اِک جرأتِ رِندانہ
خلئے کی گرہ کھولی، جوہر کا جگر چیرا
راکٹ کو فضاؤں میں بھیجا ہے سفیرانہ
اب ذوقِ تجسس کا اِک اور ہی عالم ہے
گھومیں گے خلاؤں میں ہم خود ہی دلیرانہ
مانا کہ نہیں کچھ واں، پر کچھ تو یقیناً ہے
ورنہ یہ کشش کیسی، کیسا یہ نہاں خانہ
مہتاب ہے اِک زینہ، کس خلوتِ بالا کا؟
کس شمعِ فروزاں کا خورشید ہے پروانہ؟
یہ کاہکشاں کیا ہے؟ کیا شئے ہیں سحابئے؟
ہے کس کے لئے آخر یہ گردشِ مستانہ
کیا راز ہے اشعاع کا؟ کیا رازِ توانائی؟
پھیلا ہے کہ سمٹا ہے فطرت کا یہ کاشانہ؟
میدانِ تجاذب میں یہ بزم سجی کیوں ہے؟
اس بزم کا ساقی ہے دیوانہ کہ فرزانہ
ہم جا کے یہ دیکھیں گے، ہم خود ہی سمجھ لیں گے
آفاق کی تکویں کے اسرارِ حکیمانہ
’’در دشتِ جنونِ من، جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور، اے ہمتِ مردانہ!‘‘
بحوالہ فیس بک ۔ سائنس کی دنیا
شمس الضحیٰ (مرحوم)
(سابق نائب ناظم، شعبہ تصنیف و تالیف، جامعہ کراچی)
نوٹ: چاند کے مسافر کی خیالی تصویر دیکھ کر، یہ نظم 1967ء میں لکھی گئی جو اسی سال ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ کے دو ماہی سائنسی جریدے ’’جدید سائنس‘‘ میں بھی شائع ہوئی۔
نئی نسل سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کیلئے جو اُردو زبان میں سائنسی ادب کا ذوق رکھتے ہیں:
معمورہٴ ارضی کا اتنا ہے بس افسانہ
دو گام کا اِک گلشن، دو گام کا ویرانہ
گنتی کے عناصر کی آمیزش و آویزش
سو طرز سے جاری ہے یہ قصہٴ طفلانہ
الجھا تو بہت میں بھی حیرت گہِ عالم میں
کام آ ہی گئی لیکن اِک جرأتِ رِندانہ
خلئے کی گرہ کھولی، جوہر کا جگر چیرا
راکٹ کو فضاؤں میں بھیجا ہے سفیرانہ
اب ذوقِ تجسس کا اِک اور ہی عالم ہے
گھومیں گے خلاؤں میں ہم خود ہی دلیرانہ
مانا کہ نہیں کچھ واں، پر کچھ تو یقیناً ہے
ورنہ یہ کشش کیسی، کیسا یہ نہاں خانہ
مہتاب ہے اِک زینہ، کس خلوتِ بالا کا؟
کس شمعِ فروزاں کا خورشید ہے پروانہ؟
یہ کاہکشاں کیا ہے؟ کیا شئے ہیں سحابئے؟
ہے کس کے لئے آخر یہ گردشِ مستانہ
کیا راز ہے اشعاع کا؟ کیا رازِ توانائی؟
پھیلا ہے کہ سمٹا ہے فطرت کا یہ کاشانہ؟
میدانِ تجاذب میں یہ بزم سجی کیوں ہے؟
اس بزم کا ساقی ہے دیوانہ کہ فرزانہ
ہم جا کے یہ دیکھیں گے، ہم خود ہی سمجھ لیں گے
آفاق کی تکویں کے اسرارِ حکیمانہ
’’در دشتِ جنونِ من، جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور، اے ہمتِ مردانہ!‘‘
بحوالہ فیس بک ۔ سائنس کی دنیا