یہی اصل نکتہ ہے مگر اکثر اہل ایمان اس کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ واقعتا شہید کا جسم خاکی تا قیامت صحیح سالم رہتا ہے۔
بحث سے اجتناب فرما کر مختصر سا جواب دیجئے گا کہ:-
ہو سکتا ہے یہ تشریح درست ہو تو بتائیں اس تشریح سے ہمارے یا آپ کے ایمان میں کوئی کمی یا زیادتی ممکن ہے؟؟؟
اچھا چلیں ایک اور نظر ڈالتے ہیں۔ اسی لڑی میں کسی صاحب نے پہلے ہی بقرہ کی آیت نمبر 154 کا حوالہ دیا ہوا ہے تو فی الحال اسی آیتِ مبارکہ کے مفہوم کا اعادہ کر لیتے ہیں:-
اور جو اللہ کی راہ میں (یعنی دین کے واسطے)
قتل ہوتے ہیں ان (کی ایسی فضیلت ہے کہ ان)
کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی یا عام مردوں کی طرح)
مردے ہیں بلکہ وہ لوگ (ایک ممتاز حیات کے ساتھ)
زندہ ہیں لیکن تم (اپنے موجودہ یعنی دنیاوی زندگی کے)
حواس سے (ان کی اس حیات کا)
ادراک نہیں کر سکتے۔
یعنی کسی کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے اللہ تعالی پر ہرگز لازم نہیں کہ وہ اس کے دنیاوی جسم کو بھی تروتازہ یا زندہ رکھے۔
اللہ تعالی کسی اور طرح سے بھی انہیں زندہ و جاوید رکھ سکتا ہے اور اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس (اور) طرز کی زندگی کو سمجھنے کا شعور (فی الحال) تم نہیں رکھتے۔
اور جن علمأ کی آپ بات کر رہے ان سے پیشگی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ
جب اللہ تعالی نے بقرہ کی آیت 154 میں خود ہی واضع کر دیا کہ "تم ان (شہدا کی) حیات کا شعور نہیں رکھتے" تو کس نے کہا کہ آپ ثابت کریں کہ کسی کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے اس کا جسدِ خاکی کا بھی قائم و دائم رکھنا ضروری ہے؟؟؟
مختصراً یہ کہ ہمارا کام صرف اتنا ہے شہدا کی اس حیات پر بھی یقین رکھنا جس کا ہم شعور نہیں رکھتے۔
اللہ تعالی صحیح معنوں میں ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائیں، آمین۔