انتہا
محفلین
یہ مضمون انٹرنیٹ پر موجود ایک مجلہ "جریدہ" کے کسی شمارے سے لیا گیا ہے۔ سال اور مہینہ میں کاپی نہیں کر سکا، اچھا لگا اسی لیے اسی طرح کاپی کر رہا ہوں۔ امید ہے احباب کو پسند آئے گا۔
قارئین کرام ! میری اس پوسٹ کو محترمہ عنیقہ صاحبہ کی اس پوسٹ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے ۔
محترمہ عنیقہ صاحبہ
باقی سائنسدانوں کی ذاتی زندگی کے متعلق تو میرا مطالعہ محدود ہے لیکن سر الیگذنڈر فلیمنگ کا ایک انٹرویو میری نظر سے گذرا ۔ اسے پڑھ کر آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ شخص وحی کی دی ہوئی مومن کی تعریف سے کتنا قریب ہے ۔ اس کی اپروچ خدا کے متعلق کتنی صحیح اور جامع ہے ۔ انٹرویوئر ایک مسلمان شخص ہے ۔ طوالت کے پیش نظر بعض غیر ضروری جملوں کی تلخیص کر دی گئی ہے ۔
“میں نے کہا ” سر فلیمنگ ، یہ ہوٹل آپ کے شایان شان نہیں ہے آپ ہمیں اطلاع کرتے ہم آپ کے شایان شان بندوبست کر دیتے “
“انہوں نے کہا ” نہیں میرے حساب سے تو اچھا خاصا ہوٹل ہے ۔
“میں نے کہا ” سر آپ جیسے لوگوں کو مہنگائی کی کیا پرواہ ، آپ تو پنسلین کے موجد ہیں “
کہنے لگے ” ہاں جب میں نے پنسلین کی ایجاد سے ہونے والی متوقع آمدنی کا تخمینہ لگایا تو یہی کوئی ہالینڈ اور بلجیم کے سالانہ بجٹ کے برابر تھی ۔ یہ آمدنی اتنی زیادہ تھی کہ اس نے بڑھ بڑھ کر میرے گلے کا ہار بن جانا تھا ۔ دیمک کی طرح مجھے چاٹ جانا تھا ۔ اس کے مقابلے میں ، میں صرف زندہ رہنا چاہتا تھا ۔ یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ہے ۔ اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے ، ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے ۔ اس کی ملکیت پوری خدائی ہے ۔ میں نے دوائیں بنانے والی کمپنیوں کو اس بات کا پابند کر دیا ہے کہ اس دنیا کا کوئی ملک ، کوئی شہر ، کوئی انسان ، کوئی معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ، وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہو گا اور اس پر میرا کوئی اجارہ نہ ہوگا ۔”
“میں تھوڑی دیر تک سر جھکا کر بیٹھا رہا تو سر فلیمنگ مسکرا کر بولے ” تمہیں کہو مجھ جیسا نادار شخص بھلا اچھا ہوٹل کیسے افورڈ کر سکتا ہے ۔ اس دنیا میں تو بہت سوں کو رہنے کے لیئے جھونپڑی تک میسر نہیں ” ۔
“میں نے کہا ” سر کیا آپ کو یقین ہے کہ پنسلین عطیہ خداوندی تھی اور اس میں آپ کا کوئی عمل دخل نہ تھا ؟ “
کہنے لگے ” میں اس اسے دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ ضرور تھا ، ایک آلہ ضرور تھا لیکن اس کا موجد یا مخترع نہیں تھا ۔ صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھا اور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خدا کا کرم اور اور اس کی عنایت تھی ۔ اصل میں جتنی بھی دریافتیں یا انکشافات ہوتے ہیں وہ خدا کے حکم اور فضل سے ہوتے ہیں ۔ “
“یہ کہ کر وہ رکے اور کہنے لگے ” معاف کرنا تم خدا پر ایمان رکھتے ہو یا نہیں ؟ ۔
“میں نے کہا ” بلکل رکھتا ہوں سر اور پورے کا پورا رکھتا ہوں ، وہ تو اصل میں ہے ہی ہمارا آپ یورپ والوں کو تو ہم نے ادھار پر دے رکھا ہے سو اب اس کی واپسی شروع ہو گئی ہے ۔ “
“کہنے لگے ‘ میں نے اس لیئے پوچھا تھا کہ تم سے بہت سارے نوجوان خواہ وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے ، اپنے علم کے زور پر خدا کے منحرف ہو گئے ہیں ۔ میرا اندازہ تھا کہ تم بھی انہیں میں سے ہو لیکن تمہارے بیان نے میرا اندازہ غلط ثابت کر دیا ۔
“میں نے کہا ” سر علمی اور عقلی طور پر تو میں اپنے دہریے دوستوں کے ساتھ ہوں لیکن جذباتی طور پر میں اب بھی خدا کا بندہ ہوں اور اس سے وابستہ ہوں “
“ہنس کر کہنے لگے ” بس اس ذیل میں جذباتی وابستگی ہی کی ضرورت ہے ، سو ہے ، باقی رہے علم و عقل تو ان کے نشانے بدلتے رہتے ہیں ۔ ان کی کچھ ایسی فکر نہیں کرنی چاہیئے “
“میں نے کہا ”سر یہ وضاحت فرمائیں کہ اصل میں جتنی بھی ایجادات و انکشافات ہوتی ہیں ، وہ خدا کے حکم سے ہوتی ہیں ؟۔”
کہنے لگے ” خدا علیم ہے اور اس کائنات کے اندر اور اس سے باہر اسے ہر شے کا علم ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے ، اپنے حساب سے ، اپنے ارادے سے ، انسانوں پر علم منکشف کرتا رہات ہے ۔ علم اسی کا عطا کردہ ہے ، نام بندے کا ہو جاتا ہے ۔
“میں نے کہا ” اس کا ثبوت ؟”
“فرمانے لگے ” اگر انسان اپنی کوشش ، محنت ، جدوجہد ، اور لگن کے ساتھ کسی نادریافت کو دریافت کرنے پر تل جائے تو وہ اس وقت تک دریافت نہیں ہو سکتی ، جب تک اس کے اترنے کا حکم نازل نہ ہو جائے ۔
“ان کی بات پیچیدہ تو نہیں تھی لیکن نئی ضرور تھی ۔ اس لئے میں ٹھیک سے سمجھ نہ سکا ، مسکرا کر بولے ” خدا علیم مطلق ہے اور اس کے پاس ہر شے کا علم ہے ، وہ جب چاہتا ہے ، جب پسند کرتا ہے ، جب مناسب خیال کرتا ہے ، اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے ۔ نہ پہلے ، نہ بعد ، ٹھیک مقررہ وقت پر ، اپنے حکم کی ساعت کے مطابق ۔ میں نے اس اصول کو لندن کے ایک سکول میں بچوں کو یوں سمجھایا تھا کہ خدا کو آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ بے شمار علم کی پوٹلیاں لٹک رہی ہوتی ہیں ۔ جب وہ چاہتا ہے ، جب مناسب خیال کرتا ہے ، قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حکم دیتا ہے ” سنبھالو! علم آ رہا ہے ۔ ” ہم سائنسدان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں ایک عرصے سے جھولی پھیلائے اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ان میں سے کسی کی جھوی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب انسان گردانا جاتا ہے “