سائنس کیا ہے؟

سائنسدان کون ہیں؟
کیا وہ کوئی خلائی مخلوق ہیں ۔۔۔۔ اگر آپ کہتے ہیں ۔۔۔نہیں جی وہ تو انسان ہی ہیں۔ تو پھر انہیں بُرا بھلا کیوں کہا جاتا ہے۔
جب مسلمان عروج پر تھے تو عیسائی یہ کہتے تھے کہ سائنس کا علم حاصل نہ کرو یہ ایک مکروہ علم ہے اور دنیاوی علم ہے جب مسلمان زوال پذیر ہو گئے تو انہوں نے ایسا کہنا شروع کر دیا۔
سائنس داں ایک فلاسفر ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ ایسی باتیں کرتا ہے جس کا عام انسان نہیں سو چ سکتا ۔ہمارا اس سے نظریا تی ٹکراو ہوسکتا ہے مگر اسے ذاتی اختلاف میں نہیں بدلنا چاہئے ۔ اور اس کے نظریے کا احترام کرنا چاہئے۔
ادب یا فکشن میر ے خیال میں کسی بھی قوم کے یا معاشرے کے طرز ، ثقافت یا سوچ کو ظاہر کرتا ہے اس لئے جس قوم کی سوچ سائنسی ہو گی وہ زیادہ سائنس فکشن ہی پڑھے گی ۔۔۔ کسی قوم کو سائنس فکشن پڑھا کر سائنس میں ترقی نہیں کی جا سکتی۔
سائنس دراصل ایک خاص سوچ کا نام ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔۔۔ اور زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے کہ پسماندہ اقوام اس کی ایک حد رکھتے ہیں اور اس حد کے بعد کی سوچ کو خدا کی سوچ کا نام دیتے ہیں۔ جیسا کہ گیلیلیو اور ارسطو اس کا نشانہ بنے ۔
اور آج کل مسلمان ایسا کرتے ہیں۔ خاص کر مولوی حضرات لوگوں کا اپنی برداشت کا نشانہ بناتے ہیں۔
 

جیسبادی

محفلین
آزاد سوچ پر تو کوئی پابندی نہیں۔ اپنی سوچ لوگوں پر ٹھونسنا جو کہ آج کے سائنسدانوں کا وطیرہ بن چکا ہے، غلط بات ہے۔ اب آپ رچرڈ ڈاکینز کی کتاب "دا سیلفش جین" پڑھو اور بتاؤ کہ اس میں کتنی سائینس ہے اور کتنی قیاس آرائی اور کتنا نسلی تعصب۔ اس طرح کی تھیوری اگر کچھ چیزوں کی وضاحت کرنے میں کارآمد بھی ثابت ہو اور اسطرح "مستند" بھی ثابت ہو جائے، مگر پھر بھی لازماً حقیقت نہیں مانی جائے گی۔ آج کا سائینسدان بھی گرانٹس کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے، اور سائینسدان سائینس کے نام پر اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے بعینہ "مزہبی راہنماؤں" کے جو مذہب کے نام پر اپنی بادشاہی بنانا چاہتے ہیں۔

ہم لوگوں کو سائینسی تھیوری اور حقیقت کا فرق معلوم نہیں۔ تھیوری صرف ایک ماڈل ہوتا ہے جس طرح نیوٹن کا کشش ثقل کا قانون ہے۔ آئینسٹاین نے بتایا کہ نیوٹن کی ایکویشن کن صورتوں میں ناکام ہو جاتی ہے اور صحیح جواب نہیں دے سکتی۔ ریاضی کے ماڈل حقیقت کا کچھ حصہ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، پوری حقیقت نہیں ہوتے۔ اب آپ بائیلوجیکل سائینس کی طرف آئیں تو وہاں حالات بہت ہی خراب ہیں، اکثر مقالے غلط شماریات استعمال کر کے پہلے سے طے شدہ نتیجہ کو ثابت کرنے کیلئے چھاپے جاتے ہیں۔
 
جیسبادی!
میں آپ کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ ایسا ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں ہوتا ۔ جس طرح برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں اسی طرح برے نظریے(Theories) بھی ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر اچھے نظریوں کی حوصلہ افزائی کیسے کی جائے گی اور اس کی جگہ پر اچھا یا ٹھوس نظریہ کیسے آئے گا۔
رہی بات ریا ضیاتی ماڈلز یا ریا ضی کی تو یہ ہمیشہ سے مثالی(Ideal) ہی رہے ہیں لیکن دنیا کی آج کی ساری ترقی اسی کی ہی وجہ سے ہے اسی لئے اسے Queen of Sciences کہا جاتا ہے۔
ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ نظریات (Theories) میں مبالغہ آرائی ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے اور ہوتی بھی رہے گے کیونکہ نظریات کیapplications میں پچاس ساٹھ سال یا پھر ایک یا دو صدیوں کا وقفہ ہوتا ہے جو مختلف لوگوں کو اس میں کمی بیشی یا تصیح کا موقع دیتا ہے۔
جیسے آئن سٹائن کے خاص نظریے (Special Theory of Relativity) سے ہم کہتے ہیں کہ مستقبل میں جایا جا سکتا ہے مگر سائنسدانوں کا خیال ہے ایسا کب ممکن ہو گا اس کے بارے میں قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا مگر ریاضی میں تو اس مشین کا ماڈل بھی بنایا جا چکا ہے جو یہ کام انجام دے سکتی ہے۔ مگر کب۔۔ ہزار سال بعد، لاکھ سال بعد یا کروڑ سال بعد ۔ ۔۔۔۔۔۔
 

نوید

محفلین
ا

السلام علیکم

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی لکھی ہوئی ایک کتاب ہے
وہ آپ سب سے شئیر کرتا ہوں امید ہے کہ آپ کو وہاں سے بہت سے سوالوں کا جواب مل جائے گا ۔
یہ کتاب آن لائن انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے اور پاکستان میں منہاج القرآن کی لائبریریوں میں بھی مل جاتی ہے ۔

نام ۔ اسلام اور جدید سائنس ۔

title.jpg

لنک ۔
http://www.research.com.pk/home/fmri/books/ur/science/index.minhaj?id=0
 
Top