ساقی۔
محفلین
سائنس کی دنیا
وقت صرف نظروں کا دھوکا ہے.. (اردو میں)
آواز اختر علی شاھ
ترجمہ قدیر قریشی
پیشکش ۔۔ سائنس کی دنیا پراجیکٹس
1971 میں ایک تجربہ کیا گیا تھا جس میں سائنس دانوں نے دو ایٹمی گھڑیاں لیں جو کہ ایک ہی وقت دکھا رہی تھیں - ان میں سے ایک کو جہاز میں رکھ کر جہاز کو دیر تک اڑایا گیا - جہاز کے اترنے کے بعد اس گھڑی کے وقت کا زمین پر موجود گھڑی کے وقت سے موازنہ کیا گیا – آئن سٹائن کی پیش گوئی کے عین مطابق یہ دونوں گھڑیاں اب مختلف وقت دکھا رہی تھیں – ان دونوں میں فرق صرف ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کے برابر تھا لیکن یہ فرق اس بات کا ثبوت تھا کہ حرکت کرنے سے وقت کی رفتار متاثر ہوتی ہے
'آئن سٹائن کے نظریہِ اضافت کو بار بار پرکھا جاچکا ہے - یہ ہر دفعہ درست ثابت ہوا ہے اور فطرت کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے'
'جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہم اس نظریے کی ایسی پیش گوئیاں ثابت کر سکتے ہیں جو انتہائی مبہم ہیں اور اب سے کچھ عرصہ پہلے تک ان کا مشاہدہ ناممکن تھا'
مکان (یعنی سپیس) اور زمان (یعنی وقت) میں غیر متوقع تعلق کی دریافت کے بعد آئن سٹائن نے یہ جان لیا کہ وقت اور سپیس کو علیحدہ علیحدہ سمجھنا غلط ہوگا – یہ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہیں کہ انہیں ایک ہی نام زمان-و-مکان (یعنی سپیس-ٹائم) دیا جانا چاہیے
'آئن سٹائن نے زمان اور مکان کی تین جہتوں (یعنی سمتوں) کو ایک چہار جہتی (یعنی چار سمتوں والے) تصور زمان-و-مکان میں ضم کر دیا'
اس نئی دریافت کی وجہ سے آئن سٹائن نے ہمیں سائنس کا سب سے مشکل تصور دیا جس کی رو سے ماضی، حال، اور مستقبل کو الگ الگ محسوس کرنا محض نظر کا دھوکہ ہے – عام زندگی میں ہم وقت کو مسلسل بہتا ہوا محسوس کرتے ہیں لیکن وقت کو الگ الگ لمحوں کی تصویروں کا مجموعہ بھی تصور کیا جاسکتا ہے – اسی طرح جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے اسے ان تصویروں کے مجموعے کا ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک ایک کر کے گذرنا سمجھا جاسکتا ہے – اگر ہم ان تمام لمحات کی تصویروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر ان کی ایک لمبی سی لکیر بنائیں جس میں کائنات میں گذرے ہوئے ہر پل کی تصویر ہو تو ان تصویروں میں ہم ان تمام واقعات کو دیکھ پائیں گے جوکائنات میں اب تک وقوع پذیر ہوچکے ہیں اور ان سب کو بھی جو آئندہ وقوع پذیر ہوں گے – اس میں کائنات کی ہر جگہ اور ہر لمحے کی تصوہر ہوگی مثلاً تقریباً چودہ ارب سال پہلے کائنات کی پیدائش سے لے کر کہکشاؤں کے بننے، کہکشاؤں میں ستاروں کے بننے، ساڑھے چار ارب سال پہلے زمین کے بننے، ڈائنوسارز کے ارتقاء، اور کائنات میں موجودہ دور میں ہونے والے واقعات مثلاً میں اپنے دفتر میں کام کرتے ہوئے – اس طرح آئن سٹائن ماضی، حال، اور مستقبل کے بارے میں روائتی سوچ کو بدلنے میں کامیاب ہوگیا
اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آپ کو 'اب' (یعنی انگریزی کا لفظ now) جیسے ظاہراً بہت سادہ سے تصور کے بارے میں سوچنا ہوگا – میرے 'اب' کا تصور یہ ہے: گھڑی کے بارہ بجانا ، میری بلی کا کھڑکی سے ابھی ابھی چھلانگ لگانا، دور دراز ہونے والے واقعات مثلاً وینس شہر میں ابھی ابھی اڑتے ہوئے کبوتر، چاند پر ابھی ابھی گرتا ہوا شہابیہ، کائنات کے دور دراز حصوں میں پھٹتے ہوئے ستارے – یہ اور ایسے بہت سے واقعات جو کائنات کے کسی بھی حصے میں اس لمحے میں وقوع پذیر ہورہے ہیں میرے 'اب' کے سادہ سے تصور میں شامل ہیں – آپ انہیں چشمِ تصور میں زمان-و-مکان کے ایک ٹکڑے یا تصویر میں دیکھ سکتے ہیں جسے ہم 'اب' کا ٹکڑا کہہ سکتے ہیں – ظاہراً عقلِ سلیم ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ مشاہدہ کرنے والے کائنات میں کہیں بھی ہوں وہ تمام اس بات پر متفق ہوں گے کہ 'اب' کا لمحہ کون سا ہے یعنی ہم اس بات پر متفق ہوں گے کہ یہ تمام کون سے 'اب' کے ٹکڑے میں ہیں – لیکن آئن سٹائن نے یہ دریافت کیا کہ اگر مشاہدہ کرنے والے تیز رفتار سے حرکت کر رہے ہوں تو وہ 'اب' کے لمحے پر اتفاق نہیں کر پائیں گے
اس تصور کو سمجھنے کے لیے زمان-و-مکان کو ایک سالم ڈبل روٹی ( یعنیbread ) کی مانند تصور کیجیے - آئن سٹائن نے دریافت کیا کہ جس طرح ڈبل روٹی کو چھری سے کاٹ کر توس کی شکل میں علیحدہ علیحدہ ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اسی طرح زمان-و-مکان کو بھی مختلف طریقوں سے علیحدہ علیحدہ 'اب' کے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے – ایسے لوگ جو حرکت کر رہے ہوں گے ان کے زمان-و-مکان کے ٹکڑے فرق ہوں گے اور ان کے 'اب' کا تجربہ ساکن لوگوں کے 'اب' سے مختلف ہوگا – ان کے زمان-و-مکان کے ٹکڑے مختلف زاویوں پر ہوں گے –
"حرکت کرنے والے لوگوں کی چھری خمیدہ چلے گی اور وہ زماں-و-مکاں کو مختلف زاویوں سے کاٹیں گے جو میرے زمان-و-مکان کے ٹکڑوں کے متوازی نہیں ہوں گے"
اس حقیقت کے حیران کن نتائج کو سمجھنے کے لیے فرض کیجیے کہ ایک خلائی مخلوق ہم سے 10 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے اور یہاں زمین پر ایک پیٹرول پمپ پر ایک آدمی موجود ہے – اگر یہ دونوں ایک دوسرے کے ریفرنس سے ساکن ہیں تو ان دونوں کا وقت ایک ہی رفتار سے گذر رہا ہوگا – یہ دونوں زمان-و-مکان کے ایک جیسے ٹکڑوں کو دیکھیں گے
لیکن آئیے دیکھیں کہ اگر یہ خلائی مخلوق اپنی بائیسکل پر بیٹھ کر ہم سے دور جانے لگے تب کیا ہوگا – چونکہ حرکت کرنے سے وقت کی رفتار کم ہوجاتی ہے اس لیے ان دونوں کی گھڑیاں اب مختلف رفتار سے چلیں گی اور چونکہ ان کی گھڑیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا ان کے 'اب' کے ٹکڑے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے – خلائی مخلوق کی چھری اب زمان-و-مکان کو ایک زاویے پر کاٹے گی اور ماضی کی طرف جائے گی – چونکہ خلائی مخلوق کی رفتار بہت کم ہے اس لیے اس کی چھری کا زاویہ بھی بہت کم ہوگا لیکن چونکہ خلائی مخلوق کا زمین سے فاصلہ بہت زیادہ ہے اس لیے زاویے کے اس معمولی فرق کا نتیجہ بھی بہت زیادہ وقت کے فرق کی صورت میں ہوگا – اس وجہ سے خلائی مخلوق کا 'اب' نہ صرف پٹرول پمپ والے شخص کے 'اب' سے مختلف ہوگا بلکہ وہ پٹرول پمپ والے شخص کا صرف ماضی ہی دیکھ پائے گا – محض چالیس سال پہلے کا ماضی نہیں جب پٹرول پمپ والا شخص ایک بچہ تھا بلکہ دو سو سال پہلے کا ماضی جسے ہم ماضی بعید سمجھتے ہیں جیسے (مشہور موسیقار) بیتھون اپنی پانچویں سیمفونی مکمل کرتے ہوئے
'بہت کم رفتار سے سفر کرتے ہوئے بھی ہمارے 'اب' اور خلائی مخلوق کے 'اب' میں بہت زیادہ فرق ہوسکتا ہے اگر ہم ایک دوسرے سے بہت زیادہ فاصلے پر ہیں '
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حرکت کی سمت تبدیل کرنے سے سے بھی دونوں کے 'اب' میں فرق آ سکتا ہے – ذرا غور کیجیے کہ اگر خلائی مخلوق زمین کی طرف حرکت کرنے لگے تو کیا ہوگا – اس صورت میں خلائی مخلوق کے 'اب' کا نیا ٹکڑا مستقبل کی طرف جھکا ہوگا – چنانچہ اب وہ خلائی مخلوق زمیں پر دو سو سال بعد ہونے والے واقعات مثلاً پٹرول پمپ پر بیٹھے شخص کی پڑپوتی کو پیرس سے نیو یارک ٹیلی پورٹ ہوتے دیکھ سکے گی
جب ہم یہ بات سمجھ لیں کے آپ کا 'اب' میرا ماضی بھی ہوسکتا ہے اور میرا مستقبل بھی اور آپ کا 'اب' اتنا ہی قابلِ اعتبار ہے جتنا کہ میرا 'اب' تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل تمام ایک حقیقت ہیں جو ہمیشه سے موجود ہیں
'اگر آپ طبیعات کے قوانین کو درست سمجھتے ہیں تو مستقبل اور ماضی بھی اتنے ہی حقیقی ہیں جتنا کہ حال ہے'
'ماضی کہیں گیا نہیں ہے اور مستقبل ابھی سے موجود ہے – ماضی، حال، اور مستقبل سب ایک ہی طریقے سے موجود ہیں'
جس طرح ہم مکان (یعنی سپیس) کے بارے میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ حقیقت میں موجود ہے اسی طرح تمام کا تمام وقت بھی حقیقت میں بیک وقت موجود ہے – واقعات جو وقوع پذیر ہوچکے ہیں یا جو آئندہ وقوع پذیر ہوں گے وہ تمام کے تمام اپنا وجود رکھتے ہیں – لیونارڈو ڈاونچی مونا لیزا بناتا ہوا، امریکہ کے فرمانِ آزادی پر دستخط، سکول میں آپ کا پہلا دن، اور وہ واقعات جو ہمارے نکتہِ نظر سے ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے جیسے مریخ پر پہلے انسان کا اترنا وغیرہ یہ تمام حقیقی اور موجود ہیں
اس چونکا دینے والے نظریے سے آئن سٹائن نے زمان و مکان کے بارے میں ہمارے پرانے تصورات کو چکناچور کردیا – اس کا کہنا تھا کہ ماضی، حال، اور مستقبل میں فرق صرف نظر کا دھوکا ہے اس کے سوا کچھ نہیں
ویڈیو چل نہیں رہی ہے ۔
کیا ڈیلیٹ ہو چکی ہے؟یہ میسج آ رہا ہے ۔
Video Unavailable
Sorry, this video could not be played.
Video Unavailable
Sorry, this video could not be played.
Sorry, this video could not be played.